Wednesday, 1 March 2017

مسرت ٹالپر : پروفائیل: مدن لال کا میلا: مدن لال Musrat Talpur


 مسرت ٹالپر

رول نمبر : (2k15/mc/65)

BS-III 
 پروفائیل
پروفائیل: مدن لال:چیئر مین آف ڈی فارمیسی 
مدن لال کا میلا:مدن لال
دنیا میں ہر انسان اپنی کچھ خاصیتوں کی وجہ سے دوسروے لوگوں میں منفرد جانا جاتا ہے،ایک ایسا کام جو معاشرے میں انسان کو اس طرح مشہور کر دیتا ہے کہ ان کو نہ جاننے والے بھی زندگی میں ایک بار ان کو دیکھنا ضرور چاہتے ہیں ،ہمارے معاشرے میں بھی ایک ایسی ہی شخصیت موجود ہے جو اپنے نام کہ ساتھ جڑے میلے کہ لقب کہ ساتھ مشہور ہے،جی ہاں میلا ''مدن لال کا میلا''۔ویسے تو دنیا میں ہمیشہ گذرے ہوئے لوگوں کا میلا لگتا ہے پر مدن لال دنیا کی پہلی شخصیت ہیں جوہر سال اپنے میلے میں خود شامل ہوتے ہیں۔مدن لا ل 17 اپریل 1975کو تھرپار کر میں پیدا ہوئے ،پرائمری تعلیم اپنے آبائی علائقے میں حاصل کی اعلی تعلیم کہ لیے حیدرآباد گئے جہاں انہوں نے ڈی فارمیسی میں اپنا مستقبل بنانے کہ لیے دن رات محنت کی ،آخر کار محنت کا نتیجہ نکلا اور مدن لال 2004میں ریسرچ ایسوسیئٹ بن گئے اور 2007 سے ایک لیکچرار کی حثیت
سے اپنی زمینداریاں پوری کر رہے ہیں۔
میں نے جب پہلی بار اس میلے کہ بارے میں سنا تواس تصور کہ ساتھ کچھ خیال آئے کہ یہ میلا بھی دوسرے میلوں کی طرح ہے جہاں لوگوں کا ہجوم ،مستی ،جشن ہوگا۔پر حقیقت میں یے میلا جشن کا نہیں سندھ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ڈی فارمیسی میں طلبہ کہ اس ہجوم کا ہے جوچیئر مین مد ن لال کہ پیپر میں سپلیاں دینے آتے ہیں۔ڈی فارمیسی کہ طلبہ کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے ساتھ چھ سات سال پہلے پاس آؤٹ طلبہ کو دیکھا ہے جو کئیں سالوں سے اس میلے میں حاضری دیتے آرہے ہیں۔
مدن لال سے جب میلے کی حقیقت کہ بارے میں پوچھاکہ کیا وجوہات ہیں تو کہنے لگے طلبہ کو زیادہ سپلیاں اس لیے لگتی ہیں کہ وہ پرائمری تعلیم الگ الگ جگہوں سے حاصل کر تے ہیں جہاں ان کو تعلیم صحیح طرح سے نہیں دی جاتی پھر جب وہ یونیورسٹی لیول پر آتے ہیں تو ان کو اپنے سبجیکٹس کی بنیادی معلومات تک نہیں ہوتی ۔ ڈی فارمیسی ایک ایسا شعبہ ہے جہاں پر غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی کیوں کہ ہمارا کام لوگوں کی زندگی بچانہ ہے،اس کہ باوجود اگر طلبہ ایسی غلطیاں کریں گے تو ان کو نتیجہ سپلی نکلے گا۔
مدن لال کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں نوجوان آسانی پسند ہیں اگر آپ ان کو آسانی دیں گے تو وہ ان کو پسند کرتے ہیں، آپ ان کو پڑھانے اور سکھانے کی کوشش کروگے تو وہ نہیں آئیں گے اور اگر آپ ان کو کہیں کہ یہاں سنگیت موسیقی چل رہی ہے تو وہ فوراً آجائیں گے۔غلطی صرف ہمارے معاشرے کہ نوجوانوں کی نہیں ،بچے زیادہ وہ کامیاب ہوتے ہیں جن کہ والدین ان سے ان کی پڑھائی کہ بارے میں پوچھتے ہیں۔ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں صرف کہا جاتا ہے کہ آپ کو فلاں چیز حاصل کرنی ہے،پر علم وہ چیز نہیں جو حاصل کی جائے علم تو وہ چیز ہے جو سیکھی جائے۔ جہاں تک میری اپنی ذاتی سوچ ہے ہم طلبہ کو تب تک نہیں پڑھا سکھا سکتے جب تک ہم ان کو سمجھ نہ پائیں۔
جس طرح مدن لال کہ میلے کہ بارے میں سنا تھااس سے یہ معلوم ہوا کے وہ ایک سخت ٹیچر ہونگے ،پر حقیقت یہ نہیں مدن لال ایک خوش مزاج ،اپنے طلبہ کی مسکراہٹ اور خوش دلی سے مدد کرنے والے استادہیں ،جن کا پڑھانے کا طریقہ کتنا بھی سخت ہوپر اس سختی کہ پیچھے ان طلبہ کہ ہی فوائد چھپے ہیں جو لوگوں کی صحت کو بہتر رکھنے کہ لیے محنت کر رہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment