ٓآرٹیکل
نام: محمد عاصم
رول نمبر: (BS-III) 2k15/MC/46
حیدرآباد میں صفائی کا نظام
حیدرآباد ٹھنڈی ہواؤں کا شہر جو کہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے 1987تک حیدرآباد پا کستان کاکراچی اور لا ہو ر کے بعد سب سے بڑا شہر تھا اور کبھی پاکستان کا چوتھا بڑا شہر ہوا کرتا تھا جو کہ انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے آٹھوے نمبر پر آگیا ہے اس کی آبادی تقریباََ پیتیس لاکھ ہے حیدرآباد شہر 1945سے لیکر 1955تک سندھ کا دارالخلافہ رہا حیدرآباد کا شمار پاکستان کے خوبصورت ترین شہروں میں ہوا کرتا تھا لیکن اب شہر کو نا جانے کس کی نظر لگ گئی ہے شہر کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے شہر میں موجود قدیم اور تاریخی مقامات کھڈرات کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو کہ انتظامیہ کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے حیدرآباد شہر پانچ قصبوں اور بیس یونین کونسل پر مشتمل ہے لیکن اس شہر کی صفائی ستھرائی کا نظام انتہائی خراب ہے اور جگہ جگہ گندگی کا ڈھیر نظر آتا ہے جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے ۔
نالوں کا ابلنا اور سیوریج کی لائنوں کی صورتِ حال بے حد خستہ ہے یہاں پانی کی لائننوں کا فاصلہ دو سے تین فٹ ہے جبکہ قانون کے مطابق لا ئنوں کا فصلہ7سے 6فٹ ہونا چاہیااگر لائنے ٹوٹ پھوٹ ہوجائے تو ان کا پانی آپس نہ مل سکے اور صاف پانی گدلانہ ہو پائے لیکن حیدرآبا د میں پا نی کی لا ئینیں 35سے45سال پرانی ہیں اسی وجہ سے آے دن ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر رہتی ہیں حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہو نے کی وجہ سے کا فی اہمیت کا حامل ہے۔بارشوں میں شہرحیدرآباد کی حالات کا کوئی پرسانح حال نہیں بارشوں کا پا نی بارش کے کئی مہینے تک کھڑا رہتا ہے جب تک وہ خشک نہ ہوجائے
حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارتی کے ایدمنسڑٹر اجازحسن کے مطابق حیدرآباد میں روزانہ کی بنیاد پر نو سو ساٹھ960))ٹن کچرا جمع ہوتا ہے جبکہ حیدرآباد سٹی تعلقہ سے چھ سو ساٹھ ٹن کچرا جمع ہوتا ہے اور تین سو ٹن کچرا لطیف آباد تعلقہ سے جمع ہوتا ہے اور کچھ سو ٹن کچرا جو کہ قاسم آباد اور دہیی علاقوں سے بھی جمع ہوتا ہے جن کا کوئی حساب نہیں حیدرآباد ڈیولپمنٹ اٹھارٹی کے پاس سرف چار سو ٹن کچرا کا ڈھیراٹھانے کی صلاہیت ہے تو باقی کچرا گلیویوں ، محلولوں ،علاقوں، سڑکوں پر رہتا ہے جو مختلف بیماریوں کی وجہ ببناتا ہے حیدرآباد سے روزانہ دو لاکھ پچس ہزار کیوبک میٹر گندے پا نی کا نکاس ہوتا ہے
حالانکہ ہر سال صو بہ سندھ کی حکومت کی جانب سے اربوں روپے سیوریج ،پانی کی فرہمی اور نکاسی کے لیے حیدرآباد ڈیولپمنٹ اٹھارٹی دیئے جاتے ہیں لیکن صفائی کا نطام بد سے بد تر ہوتا جا رہاہے عام طور پر گندگی تین اقسام ہوتی ہے جن میں سے دو انتہائی خطرک نا ک ہوتی ہیں جو کہ گندا بانی اور کچرے کا ڈھیر ہے اور جبکہ تیسری اقسام ویسٹج ہے جسں کو ہم دوبارہ تسکیل دے کر استعمال کرسکتے ہیں جبکہ باقی دو اقسام استعمال کے قابل نہیں کیونکہ یہ انتہائی خطرناک ہے
صفائی ستھرائی کے نظام کی بد حالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حیدرآباد میں کچرے کا ڈھیر جمع کرنے کے لیے کوئی مناسب انتظام موجود نہیں اسی وجہ سے کچرے کے ڈھیر کو گا لیوں اور سڑکوں پر عوام پھینکنے پر مجبورہیں ایک اور وجہ عوام کی لاپروائی ہے جسں میں وہ خود اپنے ہاتھوں اپنے لیے صحت اور ماحولیاتی کے مسائل پیدا کرتے ہیں بد قسمتی سے پاکستان کو آزاد ہوے70سال ہوئگیہیں لیکن اب کچرا اٹھانے کے لیے کوئی تسلی بشخں انظام موجود نہیں ہے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام،حکومت، سیاسیتدانوں اور ذمہ دار مل کر اس کا حل نکالے سکے
عوام میں بیدری پیدا کی جاے اور ان کو تعلیم یافتہ یا آگاہ کیا جائے کچرے ،آلود گی اور ان کے صحت پر اثر اندز ہوتی ہے