Tuesday, 28 February 2017

حیدرآباد میں صفائی ستھرائی کا نظام : محمد عاصم



ٓآرٹیکل 

نام: محمد عاصم 
رول نمبر: (BS-III) 2k15/MC/46

حیدرآباد میں صفائی کا نظام



حیدرآباد ٹھنڈی ہواؤں کا شہر جو کہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے 1987تک حیدرآباد پا کستان کاکراچی اور لا ہو ر کے بعد سب سے بڑا شہر تھا اور کبھی پاکستان کا چوتھا بڑا شہر ہوا کرتا تھا جو کہ انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے آٹھوے نمبر پر آگیا ہے اس کی آبادی تقریباََ پیتیس لاکھ ہے حیدرآباد شہر 1945سے لیکر 1955تک سندھ کا دارالخلافہ رہا حیدرآباد کا شمار پاکستان کے خوبصورت ترین شہروں میں ہوا کرتا تھا لیکن اب شہر کو نا جانے کس کی نظر لگ گئی ہے شہر کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے شہر میں موجود قدیم اور تاریخی مقامات کھڈرات کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو کہ انتظامیہ کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے حیدرآباد شہر پانچ قصبوں اور بیس یونین کونسل پر مشتمل ہے لیکن اس شہر کی صفائی ستھرائی کا نظام انتہائی خراب ہے اور جگہ جگہ گندگی کا ڈھیر نظر آتا ہے جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے ۔


نالوں کا ابلنا اور سیوریج کی لائنوں کی صورتِ حال بے حد خستہ ہے یہاں پانی کی لائننوں کا فاصلہ دو سے تین فٹ ہے جبکہ قانون کے مطابق لا ئنوں کا فصلہ7سے 6فٹ ہونا چاہیااگر لائنے ٹوٹ پھوٹ ہوجائے تو ان کا پانی آپس نہ مل سکے اور صاف پانی گدلانہ ہو پائے لیکن حیدرآبا د میں پا نی کی لا ئینیں 35سے45سال پرانی ہیں اسی وجہ سے آے دن ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر رہتی ہیں حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہو نے کی وجہ سے کا فی اہمیت کا حامل ہے۔بارشوں میں شہرحیدرآباد کی حالات کا کوئی پرسانح حال نہیں بارشوں کا پا نی بارش کے کئی مہینے تک کھڑا رہتا ہے جب تک وہ خشک نہ ہوجائے 


حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارتی کے ایدمنسڑٹر اجازحسن کے مطابق حیدرآباد میں روزانہ کی بنیاد پر نو سو ساٹھ960))ٹن کچرا جمع ہوتا ہے جبکہ حیدرآباد سٹی تعلقہ سے چھ سو ساٹھ ٹن کچرا جمع ہوتا ہے اور تین سو ٹن کچرا لطیف آباد تعلقہ سے جمع ہوتا ہے اور کچھ سو ٹن کچرا جو کہ قاسم آباد اور دہیی علاقوں سے بھی جمع ہوتا ہے جن کا کوئی حساب نہیں حیدرآباد ڈیولپمنٹ اٹھارٹی کے پاس سرف چار سو ٹن کچرا کا ڈھیراٹھانے کی صلاہیت ہے تو باقی کچرا گلیویوں ، محلولوں ،علاقوں، سڑکوں پر رہتا ہے جو مختلف بیماریوں کی وجہ ببناتا ہے حیدرآباد سے روزانہ دو لاکھ پچس ہزار کیوبک میٹر گندے پا نی کا نکاس ہوتا ہے 
حالانکہ ہر سال صو بہ سندھ کی حکومت کی جانب سے اربوں روپے سیوریج ،پانی کی فرہمی اور نکاسی کے لیے حیدرآباد ڈیولپمنٹ اٹھارٹی دیئے جاتے ہیں لیکن صفائی کا نطام بد سے بد تر ہوتا جا رہاہے عام طور پر گندگی تین اقسام ہوتی ہے جن میں سے دو انتہائی خطرک نا ک ہوتی ہیں جو کہ گندا بانی اور کچرے کا ڈھیر ہے اور جبکہ تیسری اقسام ویسٹج ہے جسں کو ہم دوبارہ تسکیل دے کر استعمال کرسکتے ہیں جبکہ باقی دو اقسام استعمال کے قابل نہیں کیونکہ یہ انتہائی خطرناک ہے 



صفائی ستھرائی کے نظام کی بد حالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حیدرآباد میں کچرے کا ڈھیر جمع کرنے کے لیے کوئی مناسب انتظام موجود نہیں اسی وجہ سے کچرے کے ڈھیر کو گا لیوں اور سڑکوں پر عوام پھینکنے پر مجبورہیں ایک اور وجہ عوام کی لاپروائی ہے جسں میں وہ خود اپنے ہاتھوں اپنے لیے صحت اور ماحولیاتی کے مسائل پیدا کرتے ہیں بد قسمتی سے پاکستان کو آزاد ہوے70سال ہوئگیہیں لیکن اب کچرا اٹھانے کے لیے کوئی تسلی بشخں انظام موجود نہیں ہے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام،حکومت، سیاسیتدانوں اور ذمہ دار مل کر اس کا حل نکالے سکے
عوام میں بیدری پیدا کی جاے اور ان کو تعلیم یافتہ یا آگاہ کیا جائے کچرے ،آلود گی اور ان کے صحت پر اثر اندز ہوتی ہے

انڑویو: لیکچرارعمران خا ن زئی: حا فظ محمد طلحہ



نا م :حا فظ محمد طلحہ

رول نمبر:2k15/mc/31
انڑویو:لیکچرارعمران خا ن زئی

علم ہی کی وجہ سے انسا ن آنے وا لے نسل کی اچھی تر بیت کر سکتا ہے 
لیکچرا ر عمرا ن خا ن ز ا ئی جو لیکچرا ر ہیں ڈ گر ی کا لج یو نٹ نمبر 11 میں ، انھو ں نے جا معہ سند ھ 
سے ا یم ایس سی کیمسڑی کیا اور وہ آ جکل میں ڈ گری کا لج میں پڑ ھا ر ہا ہو ں ۔

سوال :آ پ نے اس پیشے کا ہی ا نتخا ب کیو ں کیا ؟
جوا ب :یہ بہت مقدس پیشہ ہے ا نبہا ء علیہ سلا م وا لا پیشہ ہے یعنی اچھی با ت بتا نا اور تعلیم دینا، میر ے نا نا بھی ہیڈ ما سڑ تھے میں ان سے بھی متا ثر تھا اور پھر کچھ اس طر ح حا لا ت بن گئے کہ اس پیشے کی طر ف ر جو ع ہو ا اور میں نے یہ پیشہ ا ختیا ر کر لیا اور میں اس پیشے میں خو ش ہو ں ۔
س :سر کا ری ا ستا د ہو نے کی حیثیت سے آپکو بنیا دی کن مسا ئل کا سا منا کر نا پڑ رہا ہے ؟
ج:بنیا د ی طو ر پر غیر تر بیتی یا فتہ بچو ں کا سا منا کر نا پڑ تا ہے ہما رے پا س پرا ئمر ی سیکشن سے جو بچے آتے ہیں انکی تر بیت ا چھی نہیں ہو تیاور اسی وجہ سے انکو بہتر انداز میں سیکھا نے پر یشا نی ہو تی ہے ۔
س:کیا آپ نے پڑ ھا نے کے علا وہ کو ئی اور کا م بھی کیا ؟
ج: پڑ ھا نے کے علا وہ میں نے اور بھی بہت سے کا م کیے ہما ری سا ئیکلو ں کی دوکا ن تھی اور میں وہا ں کا م کر تا تھا لیکن ز یا دہ میرا عمل د خل پڑ ھا ئی سے رہا ۔
س:آپ میں ایسی کو نسی خصو صیا ت ہیں جو آپکو دو سرو ں استا دو ں سے منفر د کر تی ہیں؟ 
ج: اگر آپ اپنے آپ سے مخلص ہیں اور اللہ کو حا ضر نا ظر جان کر بچو ں کو اچھے طر یقے سے پڑ ھا ر ہے ہیں اور ا پنے فر ائض ایما ند اری سے ا دا کر رہے ہیں ،بچو ں کی اچھی تر بیت کر رہے ہیں، یہ چند چیزیں ایسی ہیں جو صرف مجھ کو نہیں بلکہ کسی بھی استا د میں ہو ں وہ اسے دوسروں سے منفرد کر سکتی ہیں ۔
س:آپ ان اسا تذہ کے با رے میں کیا کہیں گے جو سر کا ری کا لجز میں صحیح نہیں پڑ ھا تے بنسنت نجی انسٹٹیو ٹ کے؟
ج: میں تو سمجھتا ہو ں کہ کو ئی استا د ایسا نہیں کر سکتا اگر وہ ایسا کر رہا ہے تو وہ اپنے پیشے سے غدا ری کر رہا ہے اور اپنی د نیا اور آخرت دو نو ں خر اب کر رہا ہے اور حلا ل رزق کو حرا م کر رہا ہے ۔
س:آپ نے اپنا مقصد حا صل کر نے میں کتنے جتن کئے؟
ج: ہر شخص کو منز ل تک پہنچنے میں مختلف مر احل سے گز ر نا پڑ تا ہے اور مجھے بھی مو قع ملا پہلے میں نے پر ا ئمری سکو ل میں پڑا پھر مڈل اسکو ل میں پھر کا لج پھر یو نیو ر سٹی،ا س زما نے میں یو نیو ر سٹی میں فسا دا ت بھی بہت تھے بڑے ڈر خو ف کے سا تھ پڑھا،جب انسا ن اپنا مقصد حاصل کر نے کی کو شش کر تا تو ا للہ بھی اسکی مد د کر تا ہے مشکلا ت تو آتی ہیں لیکن انسا ن اپنی منزل تک پہنچ جا تا ہے ۔
س:سر کا ری تعلیمی ادا روں میں ایسی کو نسی خا می ہے کہ آ جکل عوا م اپنے بچو ں کو سر کا ری ادا روں میں پڑ ھا نا نہیں چا ھتی؟
ج: سر کا ری تعلیمی اداروں میں بنیا دی خا می یہ ہے کہ و ہا ں چیکنگ بیلنس سسٹم نہیں ہے ،و ہا ں مو جو د اسا تذہ کا جا ئزہ لیا جا ئے کہ کیا پڑ ھا یا اور بچو ں نے کیا سیکھا تب تو بہتری آ سکتی ہے ابھی با ئیو میڑ ک سسٹم سے کا فی بہتری آئی ہے ۔
س:سر کا ری تعلیمی اداروں کی حا لت بد سے بتر ہو تی جا رہی ہے سر کا راتنے فنڈ دیتی ہے وہ کہا ں لگ ر ہے ہیں ؟
ج:سر کا ری تعلیمی اداروں کی حالت بد سے بتر ہو نے میں سا رے ہی لو گ ملو ث ہیں سب کو پتا ہے کیو ں ہو رہی ہے اور کیسے ہو رہی ہے اس پر مزیدکیا کہا جا سکتا ہے ۔
س:آجکل معا شرے میں کا پی کلچر عا م ہو چکا ہے آپ لو گ مل کر اسے ختم کیو ں نہیں کر پا ر ہے؟
ج: کا پی کلچر صر ف استادوں کی محنت سے ختم نہیں ہو گا بلکہ پو رے معا شر ے کو حصہ لیناپڑے گا اسکو ختم کر نے میں ،جس میں انتظا میہ ، استا د ،ما ں با پ اور معا شرے کا ہر فرد مل کر اسے ختم کر سکتے ہیں ۔
س:آجکل معاشرے میں اسا تذہ کا کر دار کیسا ہے ؟
ج:آجکل معا شرے میں اسا تذہ کا کر دار پہلے کے مقا بلے میں بہتر تو نہیں ہے لیکن وہی با ت آتی ہے جسطر ح پا نچوں انگلیاں برا بر نہیں ہو تی اسطر ح استا د بھی ایک جیسے نہیں ہو تے کچھ استا د بہت اچھے ہو تے ہیں وہ ملک و قو م کی تر قی کے لئے محنت کر تے ہیں اور بچو ں کو ایما ندا ری سے پڑ ھا تے ہیں اور کچھ ایسے ہو تے ہیں جنکو آپ مجھ سے زیا دہ بہتر جا نتے ہیں ۔
س:پڑ ھا نا ایک مقدس عمل ہے مگر آجکل یہ اپنے مفا د کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ایسا کیو ں ہو رہا ہے؟ 
ج: صر ف اسی پیشے میں نہیں بلکہ ہر پیشے میں انسان اپنے مفا د کو سا منے ر کھتا ہے اسکی سب سے بڑی وجہ یہ کہ دین کی کمی ہے خو فِ خدا نہیں ہے اگر شعور اور خو فِ خدا آ جا ئے تو کسی کو پا بند کر نے کی ضرو رت نہیں پڑے گی انسا ن اپنی ذمداری کو خو د سنبھا ل لے گا اچھے انداز میں ۔
س:آپ طلباء سے کچھ کہنا چا ہیں گے۔
ج:طلبا ء کو چا ہیے کے پڑھا ئی حا صل کر یں کیو نکہ علم ہی ایک اکسا عنصر ہے جسکی بنیا د پر انسا ن ہر مسئلے کا حل نکا ل سکتا ہے اور علم ہی کی وجہ سے انسا ن اپنی آے والی نسل کی اچھی تر بیت کر سکتا ہے

سولر انرجی پینل کا بڑھتا ہوا رجہان : جنید برمانی - Junaid Birmani

آرٹیکل: جنید برمانی :BS/Hons/Part-III

لوڈ شیڈنگ کے باعض دیہاتی علاقوں میں سولر انرجی پینل کا بڑھتا ہوا رجہان

کہا جا تا ہے کہ کوئی مسئلہ اکیلا نہیں آ تا بلکہ مسائل کی کڑیاں ایک دوسرے کے سا تھ مل کر ایک زنجیر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور ان کے حل کا بہترین اصول یہی ہے کہ پہلی بنیا دی کڑی پر توجہ دی جائے۔ پاکستان کے اقتصادی ،صنعتی اور زرعی مسائل میں ایک بنیا دی مسئلہ توانائی کی کمی کا ہے پاکستان میں توانائی کے ذرائع بجلی، قدرتی گیس اور کوئلے کی صورت میں موجود ہ ہیں ۔ جہاں تک بجلی کی پیداوار کا تعلق ہے ملک میں پہلے زیادہ تر بجلی پانی سے حاصل ہوتی تھی یہ توانائی بہت سستی ہے ۔ گزشتہ برسوں سے ہمارے یہاں کوئی بڑ ا پیداواری منصوبہ شروع نہیں کیا گیا ، ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم بجلی کی پیداروار کے لیے فوری طور پر تھر کوئلے کے وسیع ذخائر کو استعمال میں لا یا جائے۔
کیونکہ ابھی ہمارے پاس اس کے استعمال کے لیے وقت ہے ، وہ اس طرح عالمی سطح پر توانائی کے ایسے ذرائع جن سے فضا میں کاربن پیدا ہو تا ہے ان پر پابندی عائد کرنے کے لیے زور وشور سے کام ہور ہا ہے اور جو منصوبے جار ی ہیں ان کے لیے اس رعایت کی توقع ہے کہ انہیں جا ری رہنے دیا جائے ، زندگی گزارنے کے لیے جن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے بجلی اور گیس بھی انہی بنیادی ضروریات میں شامل ہے ۔ انکے بغیر زندگی کا تصور نا ممکن سا لگتا ہے گیس کی کمی تو کوئلہ اور لکڑیا ں جلا کر پوری کی جا سکتی ہے مگر بجلی کی کمی کس طرح پوری کی جائے لوڈ شیڈنگ چاہے بجلی کی ہو یا گیس کی دونوں ہی انسانی زندگی کو مفلوج کو دیتی ہیں ۔ دیہاتی علاقوں میں چودہ اسے اٹھا ر ہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نے انسانی زندگی کو مفلو ج کر دیا ہے گھر میں آئے تو لائٹ نہیں زمینوں پر کام کرنے جائیں تو لائٹ نہیں اور سا تھ سا تھ لوڈ شیڈنگ زرعی شعبے کو بھی تباہ کر رہی ہے اکثر بجلی کے متبادل کے طور پر سولر انرجی استعمال کیا جاتا ہے اور زمینوں اور گھروں اسکولوں میں زیادہ تر سولر انرجی پلیٹس کا استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ سولر انرجی پلیٹس پچیس واٹ سے لے کر تین سو پندرہ واٹ تک ہیں اور جتنی چاہے لگا سکتے ہیں ۔مختلف کمنیزکے سولر پینل مارکیٹ میں دستیا ب ہیں۔ تین سو پندرا واٹ کی تین پلیٹس کا سولر پینل بارا سیور، پانچ باراہ واٹ کے پنکھیں ،ایک ٹی وی ، ایک فریج ، ایک کمپیوٹر ، چلا سکتے ہیں اسی طرح زمینوں سولر ز کی سائز اور پلیٹس کی مقدار گھروں کے سولر سسٹم سے کچھ زیادہ ہوتی ہے ۔
اسی چیزوں یو پی ایس،سولر انرجی پینل یا جنریٹر کے عادی کبھی اپنا حق مانگے کے قابل ہوہی نہیں نہیں سکتے محفلوں میں مشورے دیے جاتے ہیں کہ جنریٹر کے شور سے پریشان ہیں تو سولر انرجی پینل لگوائیں اور اگر بڑا سولر نہیں لے سکتے تو ایک چھوٹی سائز کی سولر پلیٹ لے لو جو کچھ پنکھے اور کچھ سیور چلا سکے ۔ پھر اس کے بعد اپنے دوستوں اور پڑوس کے گاؤ ں والوں کے بڑے مزے سے بتایا جاتا ہے کہ ہمارے سولر پینل پہ تو بہت سی چیزیں چلتی ہیں وہ بہت زبردست ہے ، تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دہاتی علاقوں میں توانائی کی کمی اور لوڈ شیڈنگ کے باعض سولر انرجی پینل پر لوگوں کا انحصا ر بڑھتا جارہا ہے۔ 

Monday, 27 February 2017

Rani Bagh feature by Akram Ranjhani اڪرم رانجهاڻي

Not reporting based. It does not reflect the present condition of the spot. Fresh photo is must

راڻي باغ



اڪرم رانجهاڻي (ايم.اي. پرويس)



جڏهن ساوڪ تي نظر پئي ٿي ته دل توڙي دماغ تي سوار ٿيل هڙئي غبار لهي وڃن ٿا، من جو اڱڻ جهومي اٿي پوي ٿو ۽ اندر جي دنيا ۾ ڇانيل اداسيون ٻهارجي وڃن ٿيون، ڄڻ ماڻهو تازو توانو ۽ باغ بهار ٿي ويندو هجي. راڻي باغ جون اهي حسين ادائون ۽ خوبصورت شامون فطرت جي حسناڪين سان سلهاڙيل رهن ٿيون ۽ اهي ئي حسناڪيون غمن ۾ وڪوڙيل توڙي اداس من واري ماڻهو لاءِ هڪ تفريحي علاج جو سبب بڻجن ٿيون. هر طرف ساوڪ ئي ساوڪ، چوڌاري هوائن ۾ جهولندڙ وڻن جون قطارون، ڳاڙهن، اڇن، ڦڪن ۽ گلابي رنگن وارن گلن جون مسڪراهٽون، ساوي پٽ تي ٺهيل پٿرن جا رستا، ننڍڙن معصوم ٻارن کي خوشيون ارپيندڙ جهولا، چڙيا گهر جي صورت ۾ جانورن جي هڪ عجب دنيا ۽ ننڍين ڍنڍن جو ڏيک ڏيندڙ پاڻي جا تلاءُ هڪ دل کسيندڙ منظر جو ڏيک ڏئي رهيا آهن ۽ اهو سمورو لڪاءُ راڻي باغ جي حسن کي وڌيڪ نکاري ڇڏي ٿو ۽ فطرت جي سونهن پڻ چوڏس نچندي رهي ٿي ۽ هي اهو ئي راڻي باغ جتي حيدرآباد شهر جي مختلف علائقن جا ماڻهو سير تفريح ۽ پنهنجي دل بهلائڻ لاءِ ايندا رهن ٿا.

سنڌ جي مختلف سرڪاري کاتن ۽ آفيسن تي مشتمل مني سيڪريٽريٽ شهباز بلڊنگس ڀرسان ۽ ديوان واڌو مل جي نالي سان منسوب ٿيل واڌو واهه جي ڀڪ ۾ 120 ايڪڙ زمين جي ايراضي تي واقع اڄوڪو راڻي باغ 1935ع ڌاري پنهنجي وجود ۾ آيو، پهرين شڪار گاهه ۽ بعد ۾ داس باغ جي ناليواري راڻي باغ جي زمين واڌو واهه مان ملندڙ پاڻي سان آباد ٿيندي هئي. 1935ع وارن تاريخن ۾ به راڻي باغ ڪنهن کان نه وسريو آهي ۽ نه ئي وري اڄ جي 2017ع واري ڏهاڪي ۾ ئي راڻي باغ ڪنهن کان وسري سگهيو آهي.1935ع کان هلندي جڏهن 1937ع جي ڏينهن ۾ اينداسين ته انهن ڏهاڙن دوران ڀائي ليلارام ڀيرومل پنهنجي والد جاسهارام خوبچند ليلارام جي ياد ۾ راڻي باغ اندر هڪ چبوترو ٺهرايو، جتي انهن ڏينهن دوران هڪ هوٽل هوندي هئي ۽ اڄ جي ڏهاڙن ۾ راڻي باغ جي اها مک جاءِ آهي، جتي جهولا لڳايا ويا آهن ۽ اتي هڪ پارڪ پڻ ٺهرايو ويو آهي. جتي سوين ٻارڙا، مرد، عورتون، ناريون توڙي نوجوان ڇوڪرا اچي رانديون کيڏندا آهن ۽ جهولا جهلندا آهن. ديوان واڌو مل به 1942ع دوران هن باغ کي وساري نه سگهيو آهي، اهو ئي سبب آهي جو هن پنهنجي نياڻي گوپي جي ياد ۾ راڻي باغ اندر هڪ تلاءُ ٺهرايو ۽ پاڪستان ٺهڻ بعد ان تلاءُ جي جاءِ تي جانورن جو چڙيا گهر پڻ ٺاهيو ويو. جڏهن ته حيدرآباد جي ناليواري واپارين سيٺ ولي ڀائي جن پڻ برڪت ڀائي جي نالي سان پارڪ ٺهرايو آهي، ان کانسواءِ عورتن واري پارڪ کي فن لينڊ ۾ تبديل ڪيو ويو آهي، جنهن کي پڻ چوديواري ڏنل آهي. راڻي باغ پاڻ سان گڏ هڪ اوپن ٿيٽر به رکي ٿو، جتي پڻ ڪيترائي پروگرام ٿيندا رهندا آهن. راڻي باغ جي ايراضي ۾ شاهي مسجد جي طرز تي پڻ هڪ مسجد قائم ٿيل آهي، جتي سير تفريح لاءِ ايندڙ ماڻهو نماز جي وقت مسجد اندر اچي عبادت ڪن ٿا ۽ باغ واري مسجد ڀر ۾ پڻ هڪ عيد گاهه به قائم ڪيل آهي، جتي باغ جي ڀرپاسي واري آبادي عيدن جي ڏهاڙن ۾ اتي اچي عيد نماز ادا ڪن ٿا.

راڻي باغ هڪ سير و تفريح وارو هنڌ ته ضرور آهي، پر  سرڪاري طور تي ان جا انتظامي معاملا ميونسپل ڪاميٽي قاسم آباد جي اختيارين هيٺ آهن، جڏهن ته راڻي باغ پڻ لکين ۽ ڪروڙين جي روپين جي صورت ۾ ميونسپل ڪاميٽي قاسم آباد کي روينيو ڏئي ٿو. ڇوجو راڻي باغ جي مک گيٽ جي داخلا، گاڏين جي پارڪنگ، چڙيا گهر، باغ ۾ قائم ڪيل جهولن، دوڪانن ۽ سير تفريح جي هنڌن جا ٺيڪا پڻ نيلام ٿيندا آهن، جن ٺيڪن جي نيلامي مان ملندڙ لکين ۽ ڪروڙين روپين جي رقم پڻ ميونپسل ڪاميٽي قاسم آباد جي اڪائونٽ ۾ وڃي داخل ٿئي ٿي. ان صاف ظاهر ٿئي ٿو ته راڻي باغ نه صرف قاسم آباد يا حيدرآباد شهر جي مختلف علائقن جي ماڻهن لاءِ سير تفريح جو هنڌ آهي، پر ساڳئي جاءِ تي لکين ۽ ڪروڙين روپين جي آمدني ڪري ڏيندڙ هڪ بزنس اسپاٽ به آهي. انهن سڀني ڳالهين باوجود راڻي باغ قاسم آباد سميت هڪ بهتر تفريح گاهه بڻيل آهي.



راڻي باغ ۾ تفريح لاءِ ايندڙ قاسم آباد جي رهواسين محمد وارث عباسي، احمد خان دل، مهوش قريشي، نينا ميمڻ، لطيف آباد واسين وقاص جعفري، نصرالله پهوڙ، انجم بخاري ۽ ٻين جو چوڻ آهي ته هو اڪثر طور پنهنجون پريشانيون، غم، اداسيون ۽ دماغ توڙي دل تي بيهندڙ ٻوجهه يا وزن هلڪو ڪرڻ لاءِ راڻي باغ ۾ سير تفريح لاءِ ايندا آهن، جنهن سان کين خوشي ملندي آهي. هو راڻي باغ جي ساوڪ، گلن، ڦلن، ٻوٽن، وڻن جي مسڪراهٽ ۽ انهن کي جهولندي ڏسي لطف اندوز ٿيندا آهن. سندن چوڻ آهي ته چڙيا گهر به تفريح جو هڪ مرڪز بڻيل آهي، جتي پڃرن ۾ قيد ڪيل ڀولڙن، خچرن، پکين ۽ جانورن کي ڏسندي هڪ عجيب خوشي محسوس ڪندا آهن ۽ ننڍين ڍنڍن جهڙو ڏيک ڏيندڙ پاڻي جا تلاءُ به سندن لاءِ هڪ دلڪش منظر جو ڏيک ڏين ٿا، جنهن مٿان ٺهيل ڪاٺ جي ننڍين پلن تي گهمندي ڦرندي کين مزو ايندو آهي. ان کانسواءِ پڃرن توڙي پاڻي جي دُٻن  ۾ رکرايل واڳون به سير و تفريح جو حصو بڻيل آهن. ان کانسواءِ فيمليز سان گڏ ايندڙ ٻارن لاءِ وري باغ جي جهولن وارو ڪارنر ۽ فن لينڊ به هڪ عجيب هنڌ آهي، جتي هو جهولن ۾ سوار ٿي، گاڏين تي چڙهي لطف اندوز ٿيندا آهن ۽ کيڏندي کيڏندي راڻي باغ ۾ قائم ٿيل دوڪانن تان شيون ۽ فاسٽ فوڊ وٺي مزا ماڻين ٿا. راڻي باغ جا اهي حسين، خوبصورت ۽ دل کي راحت بخشيندڙ منظر ڏسي هر ماڻهو جي دل باغ و بهار ٿي ويندي آهي. اهو ئي سبب آهي جو حيدرآباد شهر جي مختلف علائقن جا رهواسي موڪلن وارن ڏينهن، عيدن بارتن ۾ ڪهي اچي راڻي باغ جو سير تفريح ڪن ٿا ۽ ڪيتريون ئي خوشيون حاصل ڪن ٿا.


Name: Akram Ranjhani     Calss: M. A (Prev)

Date: 18-2-2017














ميهڙ جي مشهور ميندي - نصير احمد چنا - Naseer Channa

Second para is too long.  Intro is poor. Not reporting based

ميهڙ جي مشهور ميندي

نصير احمد چنا ايم اي پريويس

ميندي به هڪ تحفو آهي، جيڪا خوشي جي موقعن تي تمام گهڻي استعمال ڪئي ويندي آهي، خوشي جي موقعن تي ميندي هٿن ۽ پيرن تي لڳائي ويندي آهي پر گهوٽ ۽ ڪنوار جي سونهن به ميندي سان نکري پوندي آهي، ڇوته ڪنوار جي سونهن ميندي بغير اڻپوري هوندي آهي، جيئن سنڌ جي مختلف شهرن جي ڪانه ڪا شيءِ مشهور هوندي آهي، تيئن ميهڙ شهر به اعليٰ قسم جي مهندي جي ڪري پوري ملڪ ۾ تمام گهڻو مشهور آهي ۽ پنهنجي هڪ الڳ سڃاڻپ رکي ٿو، ميهڙ جي ميندي کي سموري ملڪ ۾ وڏي چاهه سان استعمال ڪيو ويندو آهي، انهيءَ سان گڏو گڏ ماڻهو ملڪ اندر توڙي ٻاهر پنهنجن دوستن ۽ عزيزن کي اها ميندي سوکڙي طور به تمام گهڻو موڪليندا آهن،

 ميهڙ جي ميندي جي پوري ملڪ ۾ ايڏي مشهوري جا ڪافي ڪارڻ آهن، جيئن ميندي جي خوشبو، معيار وغير شامل آهن، سنڌ جي اڪثر شهرن جا ماڻهو شادين ۽ عيدن جي موقعن تي ميندي خريد ڪرڻ لاءِ ميهڙ جو رک ڪن ٿا، يا وري دوستن معرفت ميهڙ مان ميندي گهرائين ٿا، جڏهن ته ميهڙ جي ميندي ڪيترائي ماڻهو پنهنجي وارن ۾ پڻ استعمال ڪندا آهن،  ميهڙ شهر جي ميندي ڪڏهن ڪنهن ڪنوار يا گهوٽ جي هٿن پيرن جي سونهن جي علامت بڻجي ٿي يا وري عيدن ۽ خوشي جي موقعن تي هٿن پيرن تي مختلف ڊزائين سان سونهن جو باعث بڻجي ٿي، ميندي جي ڪري ميهڙ شهر دنيا جي مختلف ملڪن ۾ تمام گهڻي مشهوري ماڻي چڪو آهي، ميندي جو فصل 5000 سال پهرين قديم مصري تهذيب کان شروع ٿئي ٿو، جيڪا ان وقت مٿي جي وارن ۽ ننهن تي لڳائي ويندي هئي ۽ ميندي جو رنگ مصري عورتن جي سونهن ۾ چار چنڊ لڳائيندو هو، ميندي جو فصل  هاڻي فقط ميهڙ ۾ نه پر سنڌ جي مختلف علائقن ۾ پوکيو وڃي ٿو، هي فصل ٺارو شاهه، نوشهرو فيروز، مورو ۽ پنجاب جي شهر فيصل آباد جي ٻهراڙي وارن علائقن ۾ پڻ ٿئي ٿو، هاڻي ڏسجي ته ميهڙ جي ميندي کي ٻين علائقن جي ميندي کان وڌيڪ شرف ڇو حاصل آهي، نباتات (ٻوٽن) جي دنيا ۾ ميندي جو اصطلاحي نالو (Lawsonia Intermis) آهي، جيڪو نباتاتي خاندان صفائيه (Lythraceae) سان تعلق رکي ٿو ۽ بسنتي گلاب به انهيءَ خاندان جو رڪن آهي، اهو ٻوٽو جيڪو قد ۾ 8 کان 15 فٽ، ڏانڊين، ججهن پنن ۽ گلابي، ڪاري ۽ نيري رنگ جي گلن سان ڀرپور ٿئي ٿو، ان لاءِ زرعي ماهرن جو چوڻ آهي ته مهندي جي پوکائي لاءِ لازمي آهي ته نمي ۽ لوڻياٺي کان پاڪ زمين جي چونڊ ڪئي وڃي ته انهيءَ سان اهو فائدو ٿيندو ته ميندي جو معيار جيئن رنگ، خوشبو ۽ پيداوار ۾ پڻ اضافو ٿئي ٿو، بنسبت نمي واري زمين، نمي واري زمين ۾ ميندي جو رنگ ۽ خوشبو مطمئن ڪندڙ نٿا ٿين ۽ فصل پڻ گهٽ پيداوار ڏئي ٿو، ميهڙ جي زمين ميندي جي فصل لاءِ تمام گهڻي مفيد آهي، ڇاڪاڻ ته اها زمين نمي ۽ لوڻياٺ کان پاڪ ۽ خشڪ ٿئي ٿي، تنهن ڪري ميهڙ جي ميندي جي چونڊ ڪئي وڃي ٿي، ميهڙ ۾ ميندي جو فصل هڪ ڊگهي عرصي تقريبن 60، 70 سالن کان ٿيندو پيو اچي پر سنڌ توڙي پنجاب جي علائقن ۾ مهندي جي پوکائي ايتري پراڻي نه آهي،

ميهڙ ۾ مهندي جي پوکائي وڏي عرصي کان ٿيندي پئي اچي، ان ڪري ميهڙ جي مهندي مشهوري ماڻي ورتي آهي، ميهڙ جي مهندي جي ڀيٽ ۾ ٻين شهرن جي ميندين سان ڪجي ته ميهڙ جي ميندي بهترين ثابت ٿيندي، ميهڙ ۾ مهندي جي خريداري ڪرڻ لاءِ ايندڙ ماڻهن جو چوڻ آهي ته ميهڙ جي مهندي پوري ملڪ ۾ مشهور آهي، جنهن جو رنگ به تمام بهترين ٿئي ٿو ۽ خوشبو به بهتر اٿس تنهن ڪري هو وڏي شوق سان ميهڙ مان مهندي خريد ڪرڻ لاءِ ايندا آهن.

Naseer channa

17-2-2017

MA 2K17






Feature Al-Manzar by Fouzia Soomro

Observe proper para, fresh foto is required. Some stories related to this spot, it should be reporting based.

المنظر هوٽل ڄامشورو
فوزيا خانم سومرو ايم اي پريوس
سنڌو جي ڇولين ۽ ٿڏڙين هوائن جا سرڙاٽ المنظر جي نشاني آهن، جن ڇولين جي جي گهرائي اندر جي خاموش سرن جي ڪنن کي ڇيڙي ڇڏينديون آهي، ماڻهو جا حواس سندي وجود جي اوٽ ۾ بيهي انهن ڇولين سان ملي وڃن ٿا، اهو المنظر جي سنڌوءَ جو نظارو سنڌ جي ڏاري علامه آءِ آءِ قاضي جي من ۾ ستل هوندو هيو، جنهن ڪري علامه آٰءِ آءِ قاضي اڪثر ڀيرا پنهنجي محبوب وني ايلسا قاضي سان گڏ ايندا هئا ۽ سنڌوءَ جي ڇولين جون موجون ۽ المنطر جو اهو نظارو ٻنهي جي محبتن کي مظبوطي سان جوڙيندو هيو، اڄ ته علامه آءِ آءِ قاضي ڪو نه آهن، پر ان جي جاءِ تي سنڌو جي ڪنڌي المنظر جو حسين نظارو ۽ علامه آءِ آءِ قاضي جون يادون موجود آهن، المظر جون شامون ۽ اڪيلايون سان گڏ رهندي به ڄڻ هڪڙي مجوم سان ملي وڃن ٿيون ۽ ماڻهن جا ميڙاڪا انهن شامن، اڪيلاين ۽ سنڌو جي ڇولين جي سونهن جا پڻ منظر رهن ٿا، سنڌ جي ڀاڪر ۾ ڀريل المنظر جو خوبصورت نظارو نه صرف هڪ عام ماڻهو کي فرد بخشي ٿو پر ساڳئي هنڌ اهو ئي منظر اهو اديب، شاعر، تخليڪار، سڄاڻ ۽ ڏات ڌڻي جي تخليق ۽ ان جي اندار مان ڦٽي نڪتل انهن گهراين ۽ احساسن کي جلا بخشي ٿو. جتي المنظر جي سموري ايراضي مهاڻن جي ٻيڙين، ساون وڻن، باغ باغيچن ۽ سنڌو جي ڇولين کي پاڻ وٽ محفوظ رکي ٿي، ته ان جاءِ تي المنظر هوٽل به هن تفريحي هنڌ کي وڌيڪ حسين بڻائي ڇڏي ٿي، المنظر هوٽل جيڪو نه صرف هوٽل ئي آهي پر اها هوٽل سنڌو جي سموري نظاري جي ماڻهن جي اک ۾ سموهڻ جو ذريعو بڻجي ٿي، المظر هوٽل ڪوٽڙي بئراج تي ٺهيل آهي، جيڪو 1955ع ۾ ٺهيو هو، ڪوٽڙي بئراج جي ٺهڻ کان 5 سال پوءِ 1960ع ۾ المنظر هوٽل ڄامشورو کليو هو، جنهن جو مالڪ محمد رفيق ميرجت آهي، جيڪو المنظر هوٽل هو مالڪ هئڻ سان گڏ هوٽل جو مئنيجر پڻ آهي، المنظر هوٽل صبح جو 7 بجي کان رات جو 12 بجي تائين کليل هوندو آهي، المنظر هوٽل تي کائڻ لاءِ پلو فراءِ تمام گهڻو مشهور آهي، المنظر هوٽل تي برسات جي موسم ۾ هزارين ماڻهو پنهنجي فيملين سميت اچي موسم جو مزو ماڻيدا آهن، جڏهن ته المنظر تي روزانو سوين ماڻهو گهمڻ ڦرڻ لاءِ اچن ٿا، المنظر تي ايندڙ ماڻهن جو چوڻ آهي ته اسان موسم جو مزو وٺڻ، ٻارن کي گهما.ڻ ۽ تفريح لاءِ وٺي ايندا آهيون، المظر هوٽل تي اچي موسم جو ڀرپور مزو ماڻيدا آهيون، جڏهن ته ٻيڙين ۾ڇڙهي چڪر پڻ لڳائيندا آهيون ۽ المنظر جو مشهور پلو فراءِ کائي خوب مزو ماڻيندا آهيون، هوڏانهن هوٽل جي مالڪ محمد رفيق جو چوڻ آهي ته المنظر هوٽل تي سنڌ جي مخلتف علائقن مان روزانو سون جي تعداد ۾ماڻهو گهمڻ ڦرڻ لاءِ ايندا آهن، جيڪي هوٽل تان مخلتف کاڌا پڻ تيار ڪرائيندا آهن، هن جو چوڻ هو ته هوٽل تي تمام لذيذ کاڌا تيار ڪيا ويندا آهن، جڏهن ته گهمڻ لاءِ ايندڙ ماڻهو پلو فراءِ شوق سان کائيندا آهن، المنظر جي مشهوري تي اسان کي تمام گهڻو فخر آهي، اسان جي ڪوشش هوندي آهي ته گهمڻ ڦرڻ لاءِ ايندڙ ماڻهن کي بهترين کاڌا فراهم ڪريون، حڪومت کي گهر جي ته المنظر تي گهمڻ ڦرڻ لاءِ ايندڙ ماڻهن جي سهولتن لاءِ اپاءُ وٺي، ته جيئڻ ايندڙ ماڻهو هن پڪنڪ پوائنٽ مان ڀرپور لطف اندوز ٿي سگهن.
Fozia khanum soomro MA Previous, MA 2K17    
date
17-2-2017





Sunday, 26 February 2017

Faeture : کجين جي اوطاق ۾ گهيريل - Mehtab Shar

It should be reporting based.  for feature, profile and interview foto should be provided by the author


کجين جي اوطاق ۾ گهيريل منهنجو ننڍپڻ

مهتاب نبي شر/ايم اي پريويس/ماس ڪميونيڪيش



ڪجهه ڳالهيون هميشه ئي دل جي ڪنهن نه ڪنهن ڪنڊ ۾ سانڍيل رکيون هونديون آهن ۽ انهن جو مٽ به ڪو نه ٿي سگهندو آهي، آئون دل جي ان دنيا جي ڳالهه نه ٿو ڪريان جنهن ۾ محبت ۽ اُڪيرَ جهڙيون ڳالهيون اچي وڃن ٿيون، پر هتي آئون پنهنجي ڳوٺ ۾ موجود انهن کجين جي ڳالهه ڪري رهيو آهيان، جيڪي مون کان ڪڏهن به ڪٿي به نه وسري سگهنديون آهن، حد ته اها آهي جو اڄ ڪلهه حيدرآباد ۾ هوندي يا ڄامشوري جي هوائن ۾ گهمندي ڦرندي ڪڏهن ڪٿي ڪو کجيءَ جو وڻ نظر اچي ويندو آهي ته آئون نه ڄاڻ ته ڇو ان ئي پهر ۾ خيالن جي دنيا ۾ گهمندي اباڻن پٽن تي وڃي پير ڌريندو آهيان، جتي ننڍپڻ ۾ سنگتي ساٿين سان ڪيترائي ڀيرا کجيءَ جا ڏنگ چوري ڪري کاڌا هونداسين، ها ٿي سگهي ٿو ته منهنجي ڳالهه ٻڌي اوهان کي حيرت ٿئي يا نه به ٿئي جو ننڍپڻ جي چوري ڪا سينا زوري نه پر مٺڙي ياد ئي هوندي آهي جيڪا جواني توڻي پوڙهائپ ۾ پئي هميشه دل تي ترندي آهي ۽ جيسين اهڙيون حرڪتون نه ٿين تيستائين خبر ڪيئن پوندي ته ڪا ٻاراڻي وهي به هئي.

سنڌ ۾ جڏهن پگهر ماڻهوءَ جي مٿي کان هلي ۽ پيرن کان اچي نڪري ته پڪ سمجهو هاڻ خيرپور جي کجي ميدان ۾ اچڻ واري آهي، جو اهڙن ڪاڙهن جي ڏينهن ۾ ئي کجي پچندي آهي ۽ اتان جي ماڻهن کي به پچائيندي آهي، جو هر ماڻهو ننڍو توڙي وڏو پنهنجي بت تي ليما هڻندي نظر ايندو آهي، ڇاڪاڻ ته اڪثر ڪري ماڻهن کي آرايون هونديون آهن، جنهن ڪري سندن بت پچي ڳاڙهاڻ مائلن ٿي پوندا آهن. پر ننڍڙا ننڍڙا ٻار پوءِ به سنگهه وهندڙ نڪ سان آرايُن وارن هٿن سان وڏي چاهه منجهان پنهنجن کيسن مان ڏنگ ڪڍندي وات ۾ وجهندا آهن، پر سوال ئي پيدا نه ٿو ٿئي جو انهن معصومن جو ئي کڻي ڪڏهن ڪو پيٽ خراب ٿئي، پر جيئن ته انهن ڏينهن ۾ باغائي خوش هوندا آهن جو آسمان ۾ چوڏس سندن کجين جا باغ پيلا جھڳا جهليو بيٺا هوندا آهن ڄڻ آسمان ۾ رڳو ککريون ئي موجود آهن، جن ماڻهن مٿان ڄڻ حملو ڪيو آهي، پر ماڻهو وري به ان حملي کان بي خبر رهندي کين هر وقت پڪڙڻ جي تات ۾ رهندا هجن.

خيرپور ضلعو جيئن ته کجين جي اوطاق بڻيل آهي ۽ دنيا سڄي گهمڻ ڦرڻ کانپوءِ به هي علائقو پنهنجي کجين واري مٺاڻ ۾ ٿي سگهي سڀني علائقن کان گوءِ کڻندي نظر اچي، پر چوندا آهن ته کجي ڊگهي ته گهڻيئي ٿيندي آهي پر ڇانوَ گهٽ ڏيندي آهي، سو هتي به اهو ئي ڪم آهي. ڇاڪاڻ ته هن ضلعي جي ٻهراڙي ۾ آبادي گهڻي آهي، ان ڪري هتي عام طور ماڻهو پنهنجي ٻني ٻڌائڻ وقت ايڪڙن نه پر جريبن کان ڪم وٺندا آهن ته ادا مون وٽ هيترا جريب ٻني آهي، ايئن ئي وري ٻهراڙيءَ جي علائقن ۾ گهڻو ڪري ته هر گهر جي اڱڻ ۾ کجيءَ جو وڻ ضرور هوندو آهي پر جنهن گهر ۾ کجيءَ جو وڻ نه هوندو آهي، اُهو ماڻهو پوءِ ڄڻ ان مند ۾ شڪي نگاهن سان پيو ڏٺو ويندو آهي. بس شال نه ڪٿان ڪنهن جي باغ وٽان گذري، هڪ ته پاڻ ئي نه چاهيندو ته ڪو اتان خالي موٽان پر جي خالي به موٽيو تڏهن به باغائي مٿس شڪ پيو ڪندو ته “الاهي گهڻي ڀينگ ڪيائين جو اتان ٿو اچي پيو”،

منهنجو هڪ دلبر دوست نالي جو ئي شهزادو آهي، ويچاري سان جيڪي انهن ڏنگن جي مند ۾ ڪِيس ٿيا آهن، سي به شال نه ڪنهن سان ٿين، ڇتن ڪاڙهن جي ڏينهن ۾ همراهه کي جڏهن اڃا شهپرن جي ساوڪ به نه آئي هئي تڏهن ٺيڪ ان ماڻهو جي کجيءَ تان کيس ڏنگ پٽڻ جو شوق ٿيو هو، جيڪو ڪٽيندو گهٽ ۽ گهليندو گهڻو هو، پر هن ڀيري کيس ڪُٽَ به ملي ها تڏهن به ٿي سگهي ها ته هو خوش ٿئي ها، پر عشق چريو سو ڪٿي ٿو ويهڻ ڏي، سو جڏهن گهڻي ڪوشش کانپوءِ به مفت وارا ڇونهارا نه مليس، جو هن سال ڪن ڌارين ماڻهن کي اتان جو ٺيڪو مليو هو، (ڇونهارا عام طور باغائي انهن ڏينهن ۾ ٺاهيندا آهن ۽ پوءِ پيٽين جي حساب سان وڪرو ڪندا آهن) تڏهن همراهه پاڻ کجيءَ تي چڙهڻ جو سوچي نڪتو، جنهن ۾ به هُو هميشه وانگر سوڀارو ته ٿيو، پر جيڏي دير سان مٿي چڙهيو هو اوتري ئي تڪڙ ۾ بلڪ هڪ پهر کان به اڳ ۾ ئي اچي پٽ تي تڏهن ڪِريو هو جڏهن سندس هٿ کجي جي ڏنگن ۾ موجود ڪجهه ککرين کي وڃي لڳو هو. کجي ويچاري پوري پُني قد جي هئي جو وري به سندس بچاءُ ٿي ويو پر اڄ تائين کيس اُهو ڏينهن ياد آهي، ڀاءُ کي مٺا کجيءَ جا ڏنگ نصيب ٿا يا نه ٿيا پر سندس چيلهه تي هٿ رکي ڀڄڻ ۽ ککرين جا ڏنگ جيڪي نصيب ٿيا سي کائنس واقعي به نه وسريا هوندا. سو جيڪڏهن ڪو ايئن ٿو سمجهي ته خيرپور ضلعي ۾ کجيون بس پٽ تي ويڇايون پيون آهن ته انهن دوستن ڀائرن کي مڙئي منهنجي پاران دعوت آهي، هن علائقي جي مٺاڻ ۽ انهن جي مٺي مٺي گرمي هميشه ياد رکڻ جهڙي ضرور آهي. کجين جي اوطاق ۾ گهيريل منهنجو ننڍپڻ به ڪجهه اهڙو ئي آهي، مون وٽ به اهڙيون ڳالهيون سانڍيل آهن پر پاڻ پنهنجي ڳالهه ڪنداسين ته متان اوهان کي ڏکي لڳي ان لاءِ ان کي اتي ئي ڇڏيون ٿا، جو متان چئو ته اسان جي ڀاءُ وري ڪيڏا سُور ڏٺا رڳو هڪ کجيءَ جو ڏنگ چوري ڪرڻ لاءِ...!

عادل انصاری فیچر - Adil Ansari

محترم یہ 413 الفاظ ہیں جبکہ 600 + الفاظ چاہئیں۔ غلام شاہ کلہوڑو پر نہیں ان کی مزار پر لکھنا تھا۔ اس حوالے سے بہت کم احوال ہے

عادل انصاری

ایم اے پریویس 2017
فیچر -غلام شاہ کلہوڑو
شہر حیدرآباد ثقافتی ، علمی لحاظ سے کئی خوبیوں سے جانا جاتا ہے یہ جس قدر خوبصورت اور ہر شق اس قدر بد قسمت بھی ہے شہر حیدرآباد کی تاریخ میں کلہوڑو خاندان کی خاصی اہمیت کے حامل رہی ہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ حیدرآباد کی بنیاد میاں غلام شاہ کلہوڑو نے رکھی تو بے جانہ نا ہوگا کیونکہ حیدرآباد تاریخ کے صفحوں پنوں ،میں اسی بات کا ذکر ہے ۔1757-1772تک میاں غلام شاہ کلہوڑو کی حکومت رہی ہے اور پکے قلعے کی تعمیر سن 1768میں رکھی جس سے ظاہر ہوتا ہے اس شہر کو آباد کرنے والے اسوقت نیرون کوٹ کے نام سے جانا جاتا تھا بعد میں حیدرآباد کا نام دیا گیا ۔
جب ان معلومات کا علم مجھے ہوا تو سوچا کیوں نہ میاں غلام شاہ کلہوڑو پر کچھ لکھا جائے ۔ مقبرے پر موجود سوڈھو خان نے بتایا کہ غلام شاہ کلہوڑو اپنے دورِ حکومت میں مقبرے تعمیر کروائی ان وصیت کے مطابق ان کی تدفین اسے مقبرے میں کی تھی جو حیدرآباد سینٹرل جیل کے عقب میں ہیں ۔
اس مقبرے کی بناوٹ دوسری جنگ عظیم کی دیواروں کی طرز میں بنایا گیا سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی مقبرے کی دیوارے دیکھنے والوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں مقبرے کی اوسطاً چوڑائی 56 x 56فٹ اور اونچائی اوسطاً 36فٹ ہے ۔ عقیدت مند غلام عباس کا کہنا ہے انھیں مچھلی والے کے نام سے بحی جانا تھا غلام عباس کا کہنا تھا جب غلام عباس کلہوڑو کے فرزند سرفراز کلہوڑو کو قتل کیا گیا تو اس وقت مقبرے کے گنبد قدرتی طور پر نیچے گر گیا ۔ زلیخاں نامی عقیدت مند کا کہنا ہے وہ کئی برسوں سے مقبرے میں آتیں ہے اور اپنی مرادیں پوری ہونے پر مچھلی کا نیاز کرتی ہے عقیدت مندوں کو اپنے طرف راغب کرنے والی چیز یہاں کی اندر کی دیواریں ہے ان دیواروں میں عقیدت مند اپنے نام دیواروں پر لکھتے ہیں اور دھاگے باندتے ہیں ۔
مقبرے کی دیواریں پہلے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی مقبرے کے آس پاس کوڑا کرکٹ کا جمع ہونا معمول سی بات تھی اب ENDOWMENT FUND TROST FOR PRESERBATION OR HERITAGE OF SINDH نامی ٹرسٹ نے جون 2015 سے مقبرے کی مرمت کاکام شروع کیا ہے جسکی لاگت 29.816ملین ہے نکاشی کا کام کرنے قالے خان محمد جو اس کام گزستہ 40 برسوں سے اسی کام وابستہ ہیں اس کا کہنا تھا یہاں مقبرے کی حالت بہت خستہ حالت تھی ریپےئر کیا جارہا ہے اور اس بات کا خیال کیا گیا ہے قدیم مقبرے کو اس طرح سے اس کی بناوٹ برقرار رکھا جائے یہ ٹرسٹ جون 2017 تک مقبرے کی مرمت کرلیں گا مگر ہماری حکومت کو چاہئے کہ اب ایسے منساب اقدام کیا جائے کہ آئندہ مقبرے تباہ حالی کا شکار نہ ہو۔

سنڌ ۾ صحت سهولتن جي اڻهوند - عطاءُ الله ميمڻ

Too general, not specific. it should be narrowed down

سنڌ ۾ صحت سهولتن جي اڻهوند

عطاءُ الله ميمڻ ايم اي پريوس

انتهائي افسوس سان چوڻو پئجي رهيو آهي ته سڀ کان وڌيڪ ٽيڪس ڏيندڙ ۽ قدرتي وسيلن سان مالا مال سنڌ صوبي جي عوام کي اڃان تائين صحت جون سهولتون به نه ملي سگهيون آهن، رڳو ٿوري نظر اسان گهمايون ته اسان کي روزانو ڪيتريون ئي اهڙيون خبرون پڙهڻ لاءِ ملنديون جن ۾ ڪنهن نه ڪنهن ماڻهو جي صحت جي سهولتن جي اڻهوند سبب موت جو واقعو نظر ضرور گذرندو، ڪٿي ڪو شخص غلط آپريشن سبب دم ڏئي رهيو آهي ته ڪٿي وري ڪو مريض وقت سر علاج نه ٿيڻ سبب لاڏاڻو ڪري وڃي ٿو، وري ڪٿي اهو به پڙهڻ لاءِ ملندو آهي ته فلاڻي شهر ۾ معصوم نينگر دوا نه هئڻ سبب تڙپي تڙپي فوت ٿي ويو آهي، اهڙيون کوڙ ساڙيون خبرون اسان جي نظرن مان گذرنديون آهن، هاڻي ته ايتري بي حسي ٿي پئي آهي جو عورتون اسپتالن جي اڱڻ ۾ ئي ٻارڙن کي جنم ڏئي رهيون آهن، اسان گهڻو پري نٿا وڃون تازو ڪجهه ڏينهن اڳ بدين جي انڊس سول اسپتال جي انتظاميا عورت مريض وٽ سڃاڻپ ڪارڊ نه هئڻ سبب پرچي نه ڪٽي ۽ ڳورهاڙي عورت اسپتال جي اڱڻ ۾ سوين ماڻهن جي سامهون ٻار کي جنم ڏنو، ساڳي ريت مدئجي سول اسپتال ۾ به اهڙو ئي واقعو پيش آيو، جتي وري ليڊي ڊاڪٽر نه هئڻ سبب مريض عورت سان گڏ آيل وارث عورتن اڱڻ ۾ ئي سندس جنم ڪرايو، اهي ٻئي واقعا هلندڙ جنوري مهيني جا ئي آهن، جيڪڏهن پاڪستان ٺهڻ کان وٺي اڄ ڏينهن تائين سنڌ جي سرڪاري اسپتالن ۾ علاج جي سهولتن جي اڻهوند ۽ انتظاميا جي غلفت سبب مريضن جي مرڻ جو انگ ڳڻڻ ويهنداسين ته شايد هي ڪاٿو هزارن تائين وڃي پهچي.

آخر اهي ڪهڙا سبب آهن جو سنڌ جي صوبائي صحت کاتي جي بجيٽ ڪروڙين روپيا هجڻ باوجود عوام تائين انهي جو ثمر نه پهچي رهيو آهي، اهو ڪهڙو ڪارڻ آهي جو صحت کاتو صوبي جي سمورن ڊسٽرڪٽ توڙي تعلقه اسپتالن ۾ لکين روپين جي دوائن جي فراهمي جي دعويٰ ته ڪري ٿو ته اهي اصل حقدار مريضن تائين نه ٿيون پهچن، آخر ڪهڙا سبب آهن جو هر اسپتال ۾ ڊاڪٽر هئڻ باوجود اهي ڊيوٽين تان گم رهن ٿا ۽ اسپتال جو ڪار وهنوار هيٺين سطح جي عملي جي حوالي ڪيو وڃي ٿو، يقينن سنڌ جي هر ماڻهو کي صحت جي سهولت فراهم ڪرڻ حڪومت جي ذميواري آهي، بجيٽ جو استعمال يقيني بڻائڻ به حڪومت جي ذميواري آهي، مريضن تائين دوائن جي رسد يقيني بڻائڻ جو بار به صحت کاتي ڏانهن وڃي ٿو پر اسان نظر ڦيرائينداسين ته صوبي جي 28 ضلعن مان شايد ئي ڪو هڪ يا 2 اهڙو ضلعو هجي جتي اهو ڪم ايمانداري سان ٿيندو هجي، جيئن اسان وٽ ڪراچي سول اسپتال اندر واقع ڊاڪٽر اديب رضوي جو ٺاهيل گڙدن جي بيمارين وارو سينٽر آهي، اهڙي ريت گمبٽ ۾ حقيقي طور عوام جي خدمت ڪندڙ ادارو ”گمس“ آهي، جتي سئو مان سئو نه پر گهٽ ۾ گهٽ سئو 98 سيڪڙو مريضن کي رليف ملي ٿو، جتي مريضن کي بنا ڪنهن سفارش يا بنا ڌڪا کائڻ جي هر گهربل سهولت ملي وڃي ٿي.

اهو به عام طرح ڏٺو ويو آهي ته سرڪاري اسپتالن ۾ جديد مشينري هوندي به انهي جو استمعال نٿو ڪيو وڃي، شايد ئي ڪنهن ضلعي جي سول اسپتال هجي جتي هر علاج لاءِ مشينري موجود هجي پر پوءِ به انهن علائقن جي اڪثريت علاج ڪرائڻ لاءِ ڪراچي، حيدرآباد، سکر ۽ لاڙڪاڻي جهڙن شهرن جو رخ ڪري ٿي، جتي وري سفارش يا پرچي کانسواءِ عوام کي موٽ نٿي ملي، پوءِ نتيجي ۾ اسپتالن مان روزانو رڳو لاش نڪرن ٿا، ڪٿي وري سرڪاري اسپتالن ۾ موجود ڊاڪٽر مريضن کي نجي اسپتالن ۾ اچڻ جي دعوت ڏيندي نظر اچن ٿا، جنهن جو مثال آئون سکر واري واقعي طور پيش ڪندس، جتي ڪجهه ڏينهن اڳ هڪ مريض کي سرڪاري اسپتال ۾ آپريشن ڪرائڻ باوجود مرض مان نجات نه ملي ته ساڳئي ڊاڪٽر کيس نجي اسپتال اچڻ جي دعوت ڏني، جتي وري سندس آپريشن ڪيو ويو ۽ آپريشن جو اهو سلسلو اتي ئي ختم نه ٿيو مريض جا لاڳيتو پنج آپريشن ڪيا ويا ۽ آخر ۾ سندس مرض ناسور بڻجي ويو ۽ هو حقيقي ڌڻي سان وڃي مليو، انهي ڳالهه ۾ به ڪو شڪ نه آهي ته صوبائي حڪومت اسپتالن ۾ سهولتن جي فراهمي يقيني بڻائڻ سان ڊاڪٽرن جي پگهارن ۾ رڪارڊ واڌ ڪئي آهي پر پوءِ سرڪاري اسپتالن ۾ مسيحيٰ بڻجي ويٺل ڊاڪٽر خبر نه آهي ڇو ”ابليس“ وارو ڪردار نڀائڻ ۾ وسان نٿا گهٽائين.  

سنڌ حڪومت تازو ٺٽي جي سرڪاري اسپتالن ۾ نجي اين جي اوز حوالي ڪرڻ وارو منصوبي تي عمل ڪرايو آهي، جنهن بابت ڄاڻ گڏ ڪرڻ کانپوءِ اهو معلوم ٿيو آهي ته اتي بهتري آئي ضرور آهي جيڪا صرف صفائي انتظامن تائين محدود آهي پر دوائن جي فراهمي ۽ جديد ٽيڪنالاجي مان مريضن کي فائدو ڏيڻ وارو مرحلو اڃان نه اچي سگهيو آهي، شايد منهنجي انهي راءِ سان ڪير اتفاق ڪري يا نه ڪري سرڪاري اسپتالن ۾ مريضن کي سهولتن جي فراهمي يقيني بڻائڻ لاءِ حڪومت کي سڀ کان پهرين پنج سالن لاءِ صوبي ۾ ”صحت ايمرجنسي“ لاڳو ڪرڻ گهرجي، جنهن ۾ سڀ کان پهرين اسپتالن ۾ عملي جي حاضري يقيني لاءِ بائيو ميٽرڪ سسٽم لاڳو ڪيو وڃي، ٻئي مرحلي ۾ اسپتالن جي انفراسٽرڪچر کي تبديل ڪري هر هڪ ڊپارٽمينٽ جو الڳ هنڌ رکي، دوائن جي فراهمي يقيني بڻائڻ لاءِ دوائن جي وڪري واري ڪڌي ڪم ۾ ملوث ڊاڪٽرن توڙي هيٺين عملي کي فوري طور نوڪرين تان برطرف ڪيو وڃي، جنهن کانپوءِ جديد ٽيڪنالاجي مان مريضن کي فائدو ڏيارڻ لاءِ ڊاڪٽرن جي تربيت کي يقيني بڻايو وڃي، انهي سان گڏ اسپتالن ۾ داخل مريضن سان ايندڙ اٽينڊس لاءِ هڪ ”گيسٽ هائوس“ جيان ڪجهه ڪمرا تعمير ڪرايا وڃن، جيڪي رات جو وقت وارڊ ۾ ميڙ ڪري ويهڻ بدران اتي قيام ڪن ۽ وري ڏينهن جو وقفي وقفي سان سندن سار سنڀال لاءِ مقرر ڪيل وقت تي وارڊ اندر اچن، اهو نظام نجي اسپتالن ۾ ضرور لاڳو آهي پر سرڪاري اسپتالن ۾ اسان وينداسين ته اسان کي اسپتال جا وارڊ گهٽ اهي ”اوطاق“ جو ڏيک ڏين ٿا.

Hyderabad Club by Muhammad Ali

Proper noun should be with capital. Paragraphs are too long.
Do not send in this format, send just as email attachment.
Writer's name  class, year etc is missing from file is missing

Muhammad Ali


Hyderabad Club

When I was 12 years old, I used to play cricket in Niaz stadium. As there were no other activities for youngsters to do in Hyderabad. One day when I was playing cricket, (I was fielder), Batsmen smashed the ball and ball went all the boundary for six, When I went to get ball I discovered a club which was about 2.5 acres big, I went to have a look inside but guard didn’t allow me and told me Club is only for members. They got me ball by themselves. When I get back to my home, I told my father there is new club in Hyderabad named as Hyderabad Club and asked my father to come and visit that club with me. As my father just came back from office and he was tired so he told me we will visit it tomorrow. That night, I was so excited to see that club, I couldn’t sleep in excitement. Next day, my father woke me up and asked me to get ready we are going to visit Hyderabad Club.

When we reached there the guard stopped us and asked for membership number. My father told them we are here to be member. The guard took us to administration office where we met Mr Zahid Ali Shiekh. In his office, I saw board their from which I came to know that Hyderabad Club was inaugurated in 2000 and completed its construction in 2002.  The man who we met in office told us the procedure of membership we asked him for tour around club he said okay u may go and visit the Club. When we came out of office we started with basketball court plus tennis court because it was nearest one. The court was 78 feet long in length with a net dividing both sides equally. After that went to the pool. There were 3 pools in Hyderabad Club. One for beginners, Other one was for teenagers and third one was for the intermediate swimmers. After visiting pool we went to walking track which was 400 meters big in diameter. After that we went to hall which contains 2 badminton courts and 2 table tennis tables and a way to walk to gym. We loved the club and tried to take membership as soon as possible.
         13thApril was the perfect day for 10 year old Inder Vineet to go for swimming. His father had finally become a member of Hyderabad club only after inder begged hun q million times to do so. Inder wants to learn how to swim. On Wednesday inder left home at 3:45 for third swimming lesson. When he arrived at club he was told to leave, perhaps, pool was closed. But when inder was heading back, he was called back by two man, presumably lifeguards. At 4:30 that day, Mr chatandas, inder’s father received a phone call every parent dreads. He was told that his only son was foundin the swimming pool, having drowned and has been taken to Ghani hospital Hyderabad. The young boy was admitted to LUMHS hospital in Karachi where he struggled between life and death a week before he passed away. When his father asked club administration to provide him the CCTV footage of tragic incident. The footage he was shown the young boy being taken out of pool. When they asked for full footage, they were conveniently told that the footage was deleted and management didn’t kept backup
Told by officials, Every month DIG Khadim Rind come to pay visit to Hyderabad club and every year it is being repainted and repaired.
        Hyderabad biggest and greatest melo “Lahooti Melo” takes place in Hyderabad club. It is 2 day melo where in day time people come to attend music sessions in which music scholar and  entrepreneur come to tell about ethics of music and to give motivational speeches respectively. In night time there is musical concert where families come to enjoy. Last time nearly 14,000 people visited this melo.

Historical places of Qambar - Uzman

Referred back. Send it again after improved form
This is not feature. Feature is always reporting based and written in interesting manner.
For feature, profile and interview, writer should provide foto.
File name wrong, No mention in file name, subject line even in text file, whether its feature or article.
Material taken from other sources should be properly attributed.
 Many spelling mistakes.
No paragraphing

قمبر جا تاريخي ماڳ مڪان
نالو: عزمان
M.A Pre
MA2k17
قمبر تعلقي ۾ پڻ ڪيئي قديم دڙا نظر اچن ٿا جن جي پنهنجي پنهنجي اهميت آهي. اهڙن ڦٽل دڙن ۾ ڪاروهر جو دڙو، ڏانديهڙ / ڏانهيڙ جو دڙو، راٻاري دڙو، نوزمان جو دڙو، نونرن جو دڙو، دانو جو دڙو، يارو جو دڙو، ڌيروءَ جو دڙو وغيره قابلِ ذڪر آهن. هنن مان اڪثر دڙا ڪن شخصيتن جي نالن يا ذاتين پٺيان مشهور آهن. مٿين دڙن مان ڏانديهڙ جو دڙو قدامت جي لحاظ کان خصوصي اهميت جو حامل آهي.  هي دڙو (ڏانديهڙ دڙو) قنبر جي اولھ ۾ 40 ڪلوميٽرن جي پنڌ تي واقع آهي. پراڻي زماني جو ڦٽل شهر ٻڌايو وڃي ٿو، وڏي ايراضيءَ تي پکڙيل آهي. هن جي کوٽائيءَ مان مورتيون ۽ ٺڪر جا ٿانو ملن ٿا. ڀانئجي ٿو ته هي سنڌ ۾ اسلام جي آمد کان اڳ جو ماڳ آهي. شايد زميني زلزلي سبب تباھ ٿيو.ڪتي جي قبر کير ٿر جابلو سلسلي جي سڀ کان اوچي چوٽي آهي، جيڪا ديهه ڪوهستان، تعلقي قمبر ۽ ضلعي قمبر_شهدادڪوٽ ۾ واقع آهي، جنهن جي اوچائي سامونڊي سطح کان 6880 فٽ ۽ ڏاڙهياري جبل جي مٿاهين پٽ کان اٽڪل 800 فٽ ٿيندي، “ڪتي جي قبر” جي نالي سان هڪ پراڻو تاريخي ماڳ آهي. ڪتي جي قبر وٽ سنڌ ۽ بلوچستان جو دنگ هئڻ سان گڏ چانڊيا جاگير جو به پڻ دنگ آهي، جيڪو لاڙڪاڻي ۽ قمبر کان اولهه طرف آهي. ڪتي جي قبر تي پهچڻ لاءِ گڏهن ۽ اٺن تي وڃڻو پوي ٿو، جنهن ڪري اچڻ ۽ وڃڻ ۾ 6 کان 7 ڏينهن لڳي ٿا وڃن. هڪڙو رستو سيتا جي نئين جابلو ندي سان ۽ ٻيو مزاراڻي نئين سان ۽ ٽيون رستو ڇانهار نئين سان آهي، جڏهن چوٿون رستو بلوچستان جي موچڙو ۽ ونگو لڪ کان ٿيندو ڪرک پير ابراهيم تائين وڃي ٿو. جيڪو جيپن ۽ فور ويل گاڏين کان سواءِ موٽر سائيڪلن جو آهي. پير ابراهيم کان پوءِ به ڏاڙهياري جبل جي ڪتي جي قبر تائين پيادل ۽ اٺن جو مشڪل رستو آهي. جيڪڏهن سيتا نئين، مزاراڻي نئين ۽ ڇانهيار واري نئين سان وڃبو ته قدرت جا جبلن ۾ حسين نظارا ۽ قدرتي منظر آهن. جيڪي انسان کي لطف ڏيڻ سان گڏ عبرت ۽ حيرت ۾ وجهي ٿا ڇڏين. جيئن ته هي چانڊيا قبيلي جي جاگير آهي، جتي ڇٽا، گائينچا، چانڊيا ۽ ڪجهه بروهي رهندا آهن، جيڪي برسات يا جابلو ندين تي گذران ڪندا آهن غيبي ديري جي ٻاهران ” رانئڪون“ نالي هڪ تاريخي ۽ قديمي قبرستان موجود آهي.غيبي ديري جي ڀرسان ” دائوءَ جا قبا “ نالي هڪ ٻيو به تاريخي قبرستان آهي. ان کان علاوه سانوڻين جي برساتن ۾ نيون وهي اينديون آهن، ڳوٺاڻن جو چوڻ آهي ته نيون وهي اينديون آهن ته اسان جا فصل مڪمل طور تي تباهه ٿي ويندا آهن، نيون وهندي تر ۾ مڇي سستي ٿي ويندي آهي، ڇاڪاڻ ته نين مان هر قسم جي مڇي تري ايندي آهي.ان کان  وڌيڪ سريالو فصل ۽ ڪڻڪ جو عام جام ٿيندو آهي، ان کان علاوه هنڌاڻا به ٿيندا آهن. جڏهن ته سبزيون پڻ ٿينديون آهن.
Uzmanhyd786@gmail.com

Thatta by Saleem Akhtar

Referred back
This is not feature but an article. Feature is always reporting based and writing in interesting manner.
For feature, profile and Interview write should provide foto.
What is condition of Thatta today? u have copy pasted the info from different book.
Media writing should be current and relevant
تاريخي شهر ٺٽو
سليم اختر
M.A Pre
MA2k17
ٺٽو پاڪستان جو مشهور قديمي ۽ تاريخي شهر آهي. سنڌ جي قديم ۽ تاريخي شهرن ۾ جيڪا اهميت ٺٽي کي حاصل آهي اها ڪنهن ٻي شهر کي حاصل ناهي. اڄ ٺٽو اسان جي ملڪ جي چئني صوبن سان روڊ وسيلي ڳنڍيل آهي ۽ سنڌودرياءُ جي اولهندي ڪناري تي ڪراچي کان 100 ڪلوميٽر ۽ جنگ شاهي ريلوي اسٽيشن کان 35 ڪلوميٽر پري واقع آهي. ٺٽي شهر جي آبادي 14 لک جي قريب آهي، هي شهر ٻن حصن تي مشتمل آهي هڪ پراڻو ٺٽو ٻيو نئون ٺٽو مڪلي آهي. پراڻي ٺٽي جون گهٽيون، بازار ۽ رستا سوڙها آهن ۽ نئون ٺٽو جيڪو مڪلي جي ٽڪرين تي آباد آهي. هندستان جي ورهاڱي کان پهرين ٺٽو ضلعو ڪراچي جو حصو هيو،ان کان پوءِ 1948ع ۾ ضلعي جو درجو مليس. تحفت الطاهرين، سنڌ جي تاريخ ۽ ٻين ڪتابن ۾ لکيل آهي ته ٺٽي شهر جو بنياد 883هه بمطابق 1585ع ۾ ڄام نظام الدين عرف ڄام نندي هڪ پهاڙي جي دامن ۾ رکيو هو. تاريخ ۾ ٺٽي کي جن مختلف نالن سان ياد ڪيو آهي، اهي آهن هتم، حتم نگر نهٽ، ٺهٽ، ٽهٽهه، تته تثو، ٺهٽو. ٺٽي مان اهڙا نشان ملن ٿا جيڪي موئن جي دڙي جا هم عصر آهن. ٺٽي ۾ تاريخي هنڌ بيشمار آهن انهن ۾ گهڻيون مسجدون آهن، جيڪي گهڻو ڪري ترخان ۽ بابري مغلن جي دور جون ٺهيل آهن، هتي اوليائن ڪرامن جا مقبرا ۽ ڪيتريون ئي تاريخي مسجدون به آهن. ٺٽو تاريخي لحاظ سان قديم شهر ملتان جو هم عصر آهي ڇو ته هتي ڪيترين ئي قومن جي شهنشاهن پنهنجي پنهنجي دور ۾ خوبصورت عمارتون ۽ مسجد ٺهرايون. مسلمان بادشاهن کان علاوه لاشاري، بلوچ، کوسه، رند، بروهي، جا کرا، ٽابرا، جوکيا، تاجر قبيلا ايران ۽ بلوچستان مان لڏي آيا ۽ هتي آباد ٿيا. ٻاهران آيل عباسي خاندان جي حڪمرانن جو ذڪر اهم آهي جيڪي بعد ۾ هتي ئي مدفعون ٿيا، کين سنڌ ۾ ڪلهوڙا لقب مليو. مڪلي جي قبرستان ۾ تقريبن 33 بادشاهه، 17 گورنر، سوا لک اولياءَ ۽ لاتعداد دانشور، اديب، شاعر ۽ عام ماڻهو دفن ٿيل آهن. هي قبرستان ٺٽي شهر کان 2 ميل پري ڪوهه مڪلي ۾ ضلع ڪچهري ٺٽي جي ويجهو ڪراچي روڊ تي واقع آهي. هتان هڪ رستو ريلوي اسٽيشن جُنگ شاهي به وڃي ٿو. هي سنڌ جو سڀ کان قديم ۽ وسيع قبرستان آهي. هن قبرستان ۾ 1334ع کان وٺي 1740ع تائين تدفين جو سلسلو جاري رهيو. مڪلي رڳو قبرستان ئي نه آهي پر هي ماضي جي تخت ۽ تاريخ جو ورق آهي. مڪلي جي قبرستان ۾ قبرن ۽ ٻين منزلن لاءِ استعمال ٿيل پٿر جُنگ شاهي جو آهي. قبرستان ۾ 14 هين کان 16 هين صدي جي دور جا جيڪي مقبرا آهن انهن ۾ ڄام نظام الدين مبارڪ خان ۽ ملڪ راج پال جا مقبرا شامل آهن، اهي سڀ حڪمران سما دؤر سان تعلق رکن ٿا، جن 185 سال ٺٽي ۽ ڀر وارن علائقن تي حڪومت ڪئي. ٻيو دؤر ترخانن ۽ ارغونن جو هو جيڪو 16هين صديءَ تائين هو. ان دور جا عيسيٰ خان ترخان. باقي بيگ ترجان، سلطان ابراهيم، مير سليمان مڪلي ۾ دفن آهن، جڏهن ته ٽيون دؤر مغلن جو هو جيڪو 16 هين کان 18 هين صديءَ تائين رهيو، ان دور ۾ جاني بيگ ترخان، باقي بيگ، ازيڪ تفرل بيگ ۽ عيسيٰ خان ترخان هتي دفن ٿيل آهن. هتي ڪيترن ئي بزرگن جون به مزارون آهن انهن مان سڀ کان اهم عبدالله شاهه اصحابي جي مزار آهي. اهڙي طرح قبرستان سان چار سئو سال پراڻي تهذيب وابسته آهي.
هتي اوليائن جي مقبرن کان علاوه ڪيتريون ئي تاريخي مسجدون به آهن جن منجهان

مسجد شاهجهان: هيءَ مسجد ٺٽي جي سڀ کان مشهور ۽ وڏي جامع مسجد آهي هن مسجد جي تعمير تي 9 لک روپيا خرچ آيو هو. هن مسجد کي امير ابوالتجا امير خان مغل بادشاهه شهاب الدين (شاهجهان) جي حڪم تي مير عبد الله نالي بادشاه تعمير ڪرايو هو. هن مسجد جي تعمير1644ع ۾ شروع ٿي ۽ 1647ع ۾ مڪمل ٿي. مسجد جي طرز تعمير سان مغلن جي تعميراتي ڪم جي اهميت جو پتو پوي ٿو. هن مسجد ۽ لاهور ۾ مغل دور جي اڏاوتن ۾ ڪافي هڪ جهڙائي آهي.لاهور جي شالامار باغ جيان هن مسجد جي باغ ۾ ڦوهارا لڳل آهن. مسجد جي خاص ڳالهه اها آهي ته ان جي مٿان گنبذن جو تعداد هڪ سؤ آهي. ٺٽو هڪ قديم تاريخي شهر آهي ۽ ڪيترائي غير ملڪي ۽ ملڪي سياح هن کي ڏسڻ اچن ٿا. هو شاهي مسجد جي فن تعمير مان جيترا متاثر ٿيندا آهن اهو ناقابل بيان آهي. مڪلي ۽ ڀر پاسي ۾ کاڻن ۽ ڪرشنگ سبب شهر ۾ قائم ايشيا جي ٻيونمبر وڏو قبرستان، تاريخي مقبرا، ڳتيل آبادي وارا علا ئقه ، ضلع جيل، اسٽيڊيم، ترڪ حڪومت پاران 2010 جي ٻوڏ متاثرين لاءِ جوڙيل ڪمپليڪس ۽ شاندار پس منظر رکندڙ تعليمي ادارا خطرن ۾ گھيريل آهن.


جوهي شهر جا قصا ۽ ڳالهيون : سجاد وفا - Wafa Sajad

Feature should be reporting based. Proper attribution is needed.
For feature, Interview and profile writer has to provide foto
سجاد وفا
M.A. Pre
MA2k17
جوهي شهر جا قصا ۽ ڳالهيون
 جوشهر مهراڻ جي خوبين جو مالڪ جوهي جنهن کي واءُ لڳي  اهو ان جو ٿي وڃي، ائين کڻي چئجي ته جوهي من کي ويو لائي، ان جي فصل جي ساوڪ جيڪا من جا سڀ گبار لاهي ڇڏي ۽ ان ۾ ماڻهن جا س ڀ غم ختم ٿيون وڃن جتي جا ماڻهو پياري پنهنجي سنڌي ٻولي ٻوليندا هجن ۽ هر هڪ تي جان نسار ڪندا هجن هن شهر جا مٽيءَ جا گهر ۽  سون جيان چمڪندڙ خوبصورت ماڻهو جيڪو ڏسڻ کانسواءِ رهي نه سگهي، اهو آهي دلوارن جو شهر جوهي، جتي هر قدرتي توڙي مالڪيت موجود آهي ۽ ان جا خوبصورت ۽ پيار ڪندڙ جيڪي هن شهر جي خوبصورتي لي چار چنڊ لڳائي ڇڏين ٿا، جوهي شهر ۾ فصل به جام ٿين ٿا، جن ۾ سرنهه جو ساڳ به تمام مشهور آهي، جوهي شهر قدرتي وسيلن سان به مالا مال آهي، جوهي شهر ۾ گئس، تيل ۽ قدرتي شيون جام آهن، جوهي شهر جا اسڪول، اسپتالون ۽ پارڪ جي پنهنجو مٽ پاڻ آهن، ان جي ڪري جوهي شهر جو سنڌ ۾ الڳ مقام آهي، جوهي شهر ڪاڇيلو علائقو آهي، جنهن جي آبادي اٽڪل چاليه هزار آهي، جنهن ۾ ڪي قومون رهنديون آهن ۽ ان ۾ هڪ تاريخي ديوانن جي ڪبي پڻ موجود آهي، جيڪا اٽڪل سٺ سال پراڻي آهي ۽ اها اتي ان ئي حالت ۾ موجود آهي، جيئن حفاظت سان هن ۾ رهي ته ڪير به نه پيو پوءِ به هن جي اندروني سونهن ۽ هن جي چمڪ ساڳي آهي، جنهن کي بلڪل حفاظت سان صاف شفاف رکيو ويو آهي ۽ اتي ڪيترائي ماڻهن هن جي سونهن پرائي زماني جون ماڻهو ڳالهيون تازا ڪرڻ ايندا آهن، تاريخي ڪبي به سڏيو ويندو آهي، جڏهن ته 1947ع ۾ پاڪستان آزاد  ٿيو ته  هن ڪبي جي جيڪي عبادت ڪندا هئا سي اتان پاڪستان مان انڊيا لڏي ويا، جنهن کانپوءِ ان ڪبي جي سونهن بحال رکڻ وارا مسلمان هئا ۽ اڄ تائين هن جي حفاظت ڪئي پئي وڃي ۽ ان کي ڏسڻ ڪيترائي ماڻهو ايندا آهن، اتي اهو ڏسي سندس يادون تازيون ڪندا آهن، جنهن کانپوءِ  ڪي ته ڪيترائي ماڻهو پنهنجو ڳالهيون ۽ ويچار به ونڊيندا آهن.
ڪنڀرن جا ٿانو
 جوهي شهر جتي ڪنڀار جيڪي به ٿانو ٺاهيندا آهن جيڪي پوري سنڌ ۾ مشهور آهن، ماڻهو ڪيترائي هتان جا ٿانو خريد ڪرڻ ايندا آهن، هتان جي ڪنڀار جا ٿانو سوکڙي طور سعودي ۽ دبئي پڻ موڪليندا آهن، جنهن جي هر جڳهه تعريف پڻ ٻڌڻ ۾ ايندي آهي، هتان جا ٿانو اهڙي خوبصورتي سان ٺاهيا ويندا آهن، جنهن جي حد ناهي، هٿان جا ڪنڀار جيڪي ٿانو ٺاهيندا آهن اهي انتهائي ٿڌا ۽ خوبصورت هوندا آهن، سڄي سنڌ ۾ هي ٿانو خريد ۽ فروخت لاءِ موڪليا ويندا آهن ۽ هتان جا ٿانو تمام گهڻا مشهور آهن، جڏهن ته پوري ڇاڪي جي ڳوٺن ۾ پڻ هتان جا ٿانو ويندا آهن، پوءِ هي جڏهن هتان جا ٿانو تاريخي پڻ سڏيا ويندا آهن، هتي جا ڪنڀار پڻ پنهنجي هنر جي حوالي سان تمام گهڻا مشهور آهن.
جوهي جون سبزيون
هتي هر مند ۾ هر فصل پڻ ٿيندو آهي، جنهن ۾ ٽماٽا، گوبي، ساوا ڌاڻا، ساڳ ۽ ٻيون ڪيتريون ئي سبزيون ۽ فصلون ٿينديون آهن، جيڪي هر ماڻهن اتان جو مزيدار ۽ خوش گوار هوندو آهي، ٻيو واري جنهن زميندار يا هاري کي اوهان ڏسندا  ته  سڀ ماڻهو خوشگوار هوندا آهن، ٻيو وري هتان جا جيڪي چانور ٿيندا آهن انهن جو ذائقو لاجواب هوندو آهي، هتان جي چانورن جي پڻ تعريف توهان هر جڳهه تي ٻڌندا، هتان جي زمين سون جيان آهي، جنهن تي هر فصل ۽ هاري جو روزگار پڻ  خوب آهي، جوهي شهر هڪ بهترين هتان جي جيڪا پيداوار آهي اها نهايت صاف شفاف ۽ بهترين قسم جي هوندي آهي، جڏهن ته هتي جيڪي ٽماٽا ٿيندا آهن اهي تما ڳاڙها ۽ مٺا هوندا آهن، جنهن کي هر ماڻهو شوق سان کائيندو آهي، اهو تعريف پڻ ڪندو آهي، جوهي شهر جا جيڪي ساوا ڌاڻا ٿيندا آهن اهي کائڻ ۾ تمام لذيذ هوندا آهن، اڪثر چيو ويندو آهي سبزيون صحت لاءِ تمام اهم آهن، جوهي شهر جي مٽي جي هر فصل ۽ سبزي نهايت بهتري آهي، جنهن کان هر ماڻهو واقف آهي ته سندس جوهي شهر بهترين شهر آهي، هتان جا ڪرنل چانور پڻ کائڻ ۾ تمام مزيدار هوندا آهن، جيڪي ماڻهن هتان سوکڙي طور پنهنجن مٽن مائٽن کي پڻ ڏيندا آهن ۽ پنهنجن پيارن ڏانهن پڻ موڪليندا آهن، اهي چانور هر ماڻهو کي پسند آهن، ماڻهو اهي چانور ڏاڍي شوق سان کائيندا آهن، سڄي سنڌ نه پوري پاڪستان جا ماڻهو ۽ واپاري هتان جا چانور خريد ڪرڻ لاءِ ايندا آهن، ڪرنل چانور جو داڻو داڻو پنهنجو مٽ پاڻ آهن، جوهي شهر جا چانور انمول ۽ بهترين چانور آهن.

Aamri jo Qbarstan by Subash Chandar Sharma

Feature is always reporting based.
For feature, profile and interview writer has to provide foto.
No proper paragraphing is observed.
What is it condition today? Stories related to this graveyard
 Your name in Sindhi is must.
File name is not proper
 Do not use all words in capital


آمري جو مقام


Subash Chandar Sharma
CLASS: MA PERVIOUS 2K17
DATE: 18-02-2017


ٽنڊو جان محمد کان اڌ ڪلو ميٽر جي فاصلي تي هڪ تاريخي قبرستان موجود آهي جنهن جو ذڪر ڪلام گرهوڙي  ۾ ڊاڪٽر شمس العلماء عمر بن محمد داءود پوٽي پڻ ڏنو آهي. جتي ٻه آمري جا وڻ اهڙي نموني موجود هعا جن لا۽ مشهور هو ته  ڳن مان جيڪو  گزرندو هو ته  چور چڪار ڪو ڙي ماڻهو جي خبر پعجي ويندي هعي ميون مخدوم عبدالرحيم گرهوڙِي اچي انهن آمري جي وڻن مان هڪ کي وڍائي ڇڏيو هو ڇو ته ماڻهون هنن جي عبادت ڪرڻ لڳاهئا هن امري جي قبرستان لاءِ چيو وڃي ٿو ته جڏهن محمد عزنوي سلطان سومناٿ جو مندر فتح ڪرڻ لاءِ نڪتو هو ته هن جهگه تي رهيو هو جتي سنڌس جي فوج ۾ طاعون پوڻ ڪري ڪيترائي فوجي مري ويا هئا سي به انهي آمري جي قبرستان ۾ مدفن آهن ماموي فقير لاءَ به مشهور آهي. بيت هاڪڙي ۾ ذڪرآيل آهي آمري مقام جي پاسي ۾ سائين عالم دانشور ٿي سگھيا نه آهن. آمري مقام جي آسي پاسي جا رهاڪو وڻج واپار به ڪندا هئا آمري مقام اڄ به خوف جي ڪري مشهور آهن ماڻهون هتي اڃان به همت نه ڪري سگھندا آهن اُتي آسي پاسي تمام قيسا هنن قبرن جي لحاظ کان مشهور آهن هتي وڏڙن جي چوڻ متابق سون وڏي مقدار ۾ موجود آهي جنهن کي اڄ تائين ڪو به ڪڊي نه سگھيو آهي. جيڪي جادو گر سون ڪڍڻ آياسي يا ته مارجي ويا يا ڍجي ڀڄي ويا آمري جا قبرستان عام قبرن جي ڀيٽ ۾ 2 فٽ وڏا آهن آمري جا مقام ٽنڊوجان محمد مشهور مقامن مان هڪ آهن آمري جا مقام پوري ميرپورخاص ضلي ۾ مشهور آهن آمري جا مقامن  ۽ پوراڻ دريا جي ڪري ٽنڊوجان محمد جي پنهنجي الڳ حيثيت آهي مقام پوراڻ دريا جي بيلڪل وهجھو هجڻ ڪري به هر ڪنهن جي ديان جو مرڪز بڻيل آهن ڪيترا اوليا، اڪرام هتي ايندا رهيا ۽ پوءِ هتي جائي ٿي رهيا ۽ هتي ئي آرام گاهون ۽ مزار شريف مجود آهن آمري مقام تي اڃان به گھري ۽ سنجدگي واري تهقيق جي ضرورت آهي ڇو ته اڃا ڪيتري جائن تي سونا سيڪا وغيره ماڻهون کي لڀن ٿا تهن ڪري عين ممڪن آهي ته آمري مقام تي ڪيترائي تاريخ حوالا اڃا به مدفن هجن جيڪي اڃا دريافت ٿي سگھيا نه هجن.

Saturday, 25 February 2017

NIAZ STADIUM HYDERABAD By Agha Noman



NIAZ STADIUM HYDERABAD

Feature  

By Agha Noman
 Student of M.A Previous (2K17)                                                                                                            

Date : 17 Feb 2017

A Cricket ground is the flat piece of earth with some buildings around it.  People can spend the money on new housing for poor people and the homeless, or you can spend it on stadiums. As we talk about the cricket stadium there is a one of the oldest cricket ground in the Hyderabad Sindh that is “NIAZ STADIUM”. It is established in 1959 NIAZ AHMED the late sports commissioner who was the motivating factor for this stadium building. Niaz stadium became the 32nd first class ground in Pakistan and 2nd in Hyderabad Sindh.
MR HafeezurRahman x-incharged of this stadium he worked 20 years as an incharged of this stadium and he represented Pakistan team in Sindh or Balouchistan when he was working at PCB. He were saying about Niaz Stadium that present condition of this stadium is not good there is no any digital scoring board, no lights and no any special sitting for spectators. In first time Worldcup held in 1987 in Niaz stadium Hyderabad. First match were played between Pakistan vs Srilanka Whereas Pakistan has won the match By 15 runs. Pakistan never lost any match in the format of Test matches or ODI’S in this stadium. The management of this stadium contracted to PCB for improvements of this stadium but no any facilities has given by PCB. PCB contracted about to give 50 thousands allowance for this stadium but still now no any facilities has given by PCB. The stadium were Constructed in 65lacs in 1916 and that time tickets were selling only in 10rupees. There are 3 players which they are selected in Pakistan Cricket team they played domestic matches in this stadium 3 players were selected in National team. In this stadium the inspiring innings ever played by JavedMiandad. He scored a century in each innings of a test and became the 2nd Pakistani after Hanif Muhammad. In this stadium the most furious bowling bowled by Jalal u din and he took first ever hat-trick in ODI’S in 1982. Five Test matches has been played so far in this stadium. First ever test Played between Pakistan Vs England in 1973 and the last test test match was played in November 1984. The pavilion of this stadium was inaugurated by Mr. Muhammad Khan Junejo was the prime minister of the Islamic Republic of  Pakitsan.                                                                                                                 In Asia there’s only most beautiful pavilion is in Niaz stadium. Ground has capacity to accommodate around15 thousands spectators and well sitting areas for audiences but in present condition there is no well settled sitting area for the spectators. PCB assumed to make the Cricket Academy in this stadium but still now no any Cricket academy has constructed in this ground. If we look up the internal structure of this stadium there’s no well settled dressing rooms where players can spend time easily. People interest or craze about this stadium is going down day by day because there’s no any facilities have provided to them and no any matches are going to be play in this stadium. People are hoping for International matches in Niazstadium if PCB give some facilities and make improvements on this stadium then it will attract the people to come and watch the matches. Some of the events happened in this stadium one of them is a helicopter landed on this stadium whereas match was abandoned between Pakistan vs Australia.

First International match was played between Pakistan Vs Australia in September 20 Where Pakistan has won the historic match against Australia. However an last International match was played in 2008 between Pakistan and Zimbabwe how long there’s no any match is played in this stadium. Management is hoping that in future this ground will be changed and people will come to see the interesting matches.                       




indigenous dresses in fashion By Sarah Aslam

Feature is always reporting based.

Return of indigenous dresses in fashion in Sindh

Feature

By Sarah Aslam
M.A Previous 2k17

The culture of Pakistan comprises numerous ethnic groups: the Punjabis, Sindhis, Baloch, Pashtuns and Kashmiri, each with their own distinctive way of living, dresses and fashion. This colorful and vivid culture, lifestyle and trend in clothing and fashion is visible as soon as you step into these provinces. Even though the national dress of Pakistan is shalwar kameez, each province has modified the dress depending on the weather conditions, lifestyle, which gives the Pakistani culture a unique identity among all other cultures.
Hyderabad is the second largest city in the Sindh province; and our people in Sindh, share a rich tapestry of culture and heritage that shapes who we are and where we live.
The normal usage items include; clothes made of soosi and khaadi. Among the most popular items in fashion apparel, The Sindhi Ajrak and topi (cap) are the most popular and widely used traditional clothing items and are said to symbolize true Sindhi culture.
Ajrak and topi are considered as a symbol of honor, pride and respect among the Sindhis. The Ajrak and topi come in various beautiful traditional designs which are mostly used to honor a guest on many occasions in educational institutions as well as in the form of a souvenir and also worn in wedding ceremonies and cultural events.
The women wear heavy traditional dresses, characterized by the famed mirror work and hand embroidery also known as “Sindhi bhart”, the original and specific Sindhi bhart being the “Hurmoocho”. These dresses are most popularly used by the women in rural areas but it is slowly making its way throughout the whole country as well as on an international level.  In addition, there are colorful dupattas, known as “Chunri”, which incorporate beautiful colors and designs. Other clothing items include; “Ralhi, which incorporates the appliqué work, which is very much popular and is used as a bed sheet cover, decorating walls etc. Among the jewelry items, the jewelry worn by the Sindhi women is made of heavy Silver whereas its exotic finishing and beautiful designs makes it demanding. Along with kundan jewelry, baanhi and sat surhi duhri gold sets are widely popular among the brides. The village women; however, wear “Aaj ji choori” or ivory bangles.
Similarly, the paranda, known as “Saggi”, in Sindhi, is also a traditional symbol of Pakistani culture, worn by both women of the village as well as the urban women. A paranda is a hair decorating ornament that compliments the traditional eastern wear and acts as a supporting accessory for the traditional clothing.
In the category of footwear, Khussa shoes are the symbol of traditional culture of Sindh, also known as Sindhi juti and mojari, are mostly made using tanned weather. In the past, khussa shoes were worn by multitude and royalty. In contrast with the khussa shows present in other provinces, the Sindhi juti differentiates itself by means of a big flower present on the front part of the shoes. These come in various different design and colors and are mostly worn in traditional functions and many of them have been modified nowadays to be worn along and match the western wear.
This rich cultural heritage in terms of apparel is a way of preserving as well as showcasing the original Sindhi cultural identity which speaks for itself. Also, it is a way to pass the traditions and cultures to the next generation. All these forms of visible cultural elements are a source to keep the cultural heritage alive for the generations to come.

TRAFFIC PROBLEMS IN HYDERABAD - Ahmadi


TRAFFIC PROBLEMS IN HYDERABAD

By: Ahmadi D/O Mohiuddin

Class: M.A (Previous) 2K17

Traffic jam is daily routine of modern urban areas like Hyderabad. Hyderabad is the 2nd largest city of Sindh, Province. Hyderabad is also facing traffic problems like Pakistan’s other cities. Almost everyone in Hyderabad has experienced Traffic jam. Traffic jam is one of the major problems in Hyderabad and this is getting worst day by day and due to this traffic accidents are increasing and major issues are developing. These accidents occur due to the broken roads and lake of traffic sense. Traffic jam is another era where precocious man get wasted for hours and if anyone is heading for a hospital in case of emergency than the patient can only look up to God  for mercy.

The condition for public transport is miserable in Hyderabad. There are huge numbers of people waiting for public transport. In Suzuki’s passengers are bumped like animals, no comfort, no safety, no low cost fare is here.

The bus fare increases often and drastically sometime even overnight and if you dare to raise the issue with bus conductor, you are basically asking for a fight some occasion, when the conductor has had good day earlier, he will just smile cheekily at passengers query and give you clichéd.

(Madam the price of petrol has increased)


The amusing part is that these buses run on compressed natural gases CNG. So how can increase in petrol prices lead to an increased in CNG fares?

Try stepping on public bus in Hyderabad and you will be invariably be referred to as Khala (aunt), Uncle (Chacha) or Brother (Bhai) Irrespective of your age or gender

Damaged condition of roads for passengers as they are taking swings. People who stuck in traffic, they patiently wait for traffic jam to over. They usually say that what this yar is?

     Oh? This is daily drama……

     But some people don’t waste their time in traffic jam they start using social networks and some start listening songs. But in this situation pedestrians do not take any kind of tension even they feel some kind of satisfaction that it is not there problem they can move easily.    

By: Ahmadi D/O Mohiuddin   Class: M.A (Previous) 2K17